طالبان حکومت نے خواتین کی مذہبی تعلیم پر بھی پابندی عائد کر دی
افغانستان میں خواتین کی مذہبی تعلیم پر مزید قدغن لگا دی گئی ہے۔ طالبان حکومت کے سربراہ اور امیرِ طالبان ہبتہ اللہ اخوندزادہ نے کابینہ اجلاس میں ہدایت جاری کی ہے کہ لڑکیوں کو مدارس میں مذہبی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔
طالبان کابینہ اجلاس میں نئی ہدایت
افغانستان انٹرنیشنل کے مطابق طالبان کے دو وزراء نے بتایا کہ امیرِ طالبان نے دو ہفتے قبل کابینہ اجلاس میں کہا کہ
- خواتین کا مدرسہ جانا شرعی طور پر جائز نہیں۔
- خلافتِ ثالثہ کے دور میں بھی خواتین کو مساجد جانے کی اجازت نہیں تھی۔
- اس لیے یہ عمل درست نہیں سمجھا جا سکتا۔
طالبان وزراء اور علما کی مایوسی
رپورٹ کے مطابق:
- کابینہ کے کئی اراکین امیر طالبان کے اس بیان پر شدید مایوس ہیں۔
- کسی وزیر میں اتنی جرات نہیں ہوئی کہ وہ ان کے سامنے اختلاف کر سکے۔
- قندھار کے ذرائع کے مطابق اب تک کسی نے بھی امیر کے موقف پر دلیل پیش کرنے کی ہمت نہیں کی۔
خواتین کی مذہبی تعلیم پر مسلسل پابندیاں
طالبان کے وزراء کا کہنا ہے کہ:
- طالبان رہنما اور علما رواں سال لڑکیوں کے اسکول دوبارہ کھلنے کی امید کر رہے تھے۔
- مگر اب دینی تعلیم کو بھی ناقابلِ قبول قرار دیا جا رہا ہے۔
- ایک وزیر نے کہا کہ یہ موقف قرآن اور سنت کی تعلیمات کے منافی ہے کیونکہ مذہبی تعلیم مرد و عورت دونوں پر فرض ہے۔
مستقبل میں خطرناک نتائج کا خدشہ
ایک طالبان اہلکار نے خبردار کیا کہ اگر خواتین پر پابندیاں اسی طرح جاری رہیں تو:
- افغانستان دوبارہ جنگی سرداروں کا میدانِ جنگ بن سکتا ہے۔
- داخلی انتشار مزید بڑھنے کا خطرہ ہے۔
تاحال طالبان حکومت نے اس خبر کی نہ تصدیق کی ہے اور نہ تردید۔ امیر طالبان کی سرگرمیوں کو خفیہ رکھا جاتا ہے۔
پس منظر
- طالبان نے اگست 2021 میں اقتدار سنبھالا تھا جب سابق صدر اشرف غنی فرار ہوگئے۔
- اس کے بعد سے لڑکیوں کو ثانوی تعلیم، جامعات اور نجی اداروں میں داخلے پر پابندی ہے۔
- عالمی طاقتوں نے افغانستان کے منجمد اثاثے اور مالی امداد خواتین کی تعلیم اور ملازمت سے مشروط کر رکھی ہے۔
