بلوچستان میں آٹے کا بحران: انتظامی غفلت یا پالیسی کی ناکامی؟
بلوچستان میں آٹے کا سنگین بحران: انتظامی غفلت یا پالیسی کی ناکامی؟بلوچستان ایک بار پھر غذائی بحران کی زد میں ہے۔ اس بار آٹے کی قلت نے عوام کی زندگیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ صوبے میں آٹے کا بحران شدت اختیار کرچکا ہے، اور یہ محض ایک وقتی قلت نہیں بلکہ بدانتظامی اور ناقص حکومتی فیصلوں کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ جہاں ایک طرف عوام مہنگے داموں آٹا خریدنے پر مجبور ہیں، وہیں دوسری طرف محکمہ خوراک کی جانب سے پالیسی کی سنگین غلطیاں سامنے آ رہی ہیں، جن کے باعث نہ صرف آٹے کی قلت پیدا ہوئی بلکہ قومی خزانے کو بھی اربوں روپے کا نقصان ہوا۔
موجودہ صورتِ حال
رپورٹس کے مطابق بلوچستان میں آٹے کی شدید قلت نے ایک بحرانی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ صوبے میں آٹے کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ تین ہفتوں کے دوران 20 کلو کے آٹے کا تھیلا 2300 روپے تک جا پہنچا ہے۔ یہ اضافہ کم و بیش 40 سے 50 فیصد ہے، جو عام شہری کی قوتِ خرید سے باہر ہو چکا ہے۔
بازاروں میں آٹے کی دستیابی نہایت محدود ہو چکی ہے، اور کئی علاقوں میں آٹا نایاب ہے۔ دکاندار حضرات یا تو آٹا رکھنے سے قاصر ہیں یا منہ مانگی قیمت وصول کر رہے ہیں۔ اس تمام صورتحال کا سب سے زیادہ اثر کم آمدنی والے طبقے پر پڑ رہا ہے، جو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔
بحران کی وجوہات: ناقص حکمت عملی
بحران کی بنیادی وجہ صوبائی محکمہ خوراک کی انتظامی غفلت اور ناقص منصوبہ بندی قرار دی جا رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق محکمہ خوراک کے پاس رواں سال کے آغاز میں 8 لاکھ بوریاں گندم موجود تھیں، لیکن حیرت انگیز طور پر مارچ اور اپریل کے مہینوں میں نئی گندم کی خریداری نہیں کی گئی۔
مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ نہ صرف نئی گندم نہیں خریدی گئی بلکہ پرانے سٹاک کو بھی اونے پونے داموں میں فروخت کر دیا گیا۔ اس فیصلے کے پیچھے جواز یہ پیش کیا گیا کہ سٹاک میں موجود گندم خراب ہو سکتی ہے، لہٰذا اس کو فروخت کرنا ضروری تھا۔
اس فیصلے کے نتیجے میں نہ صرف گودام خالی کر دیے گئے بلکہ محکمہ خوراک کو تقریباً 6 ارب روپے کا نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ صوبے کے پاس کوئی وافر گندم سٹاک موجود نہیں، جبکہ نئی خریداری کی تاخیر نے حالات مزید بگاڑ دیے ہیں۔
عوامی ردِعمل اور مشکلات
صوبے کے مختلف شہروں سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق عوام شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ کوئٹہ، تربت، خضدار، چمن، ژوب اور دیگر علاقوں میں آٹا یا تو دستیاب نہیں، یا پھر اتنا مہنگا ہو چکا ہے کہ غریب عوام کی پہنچ سے دور ہو چکا ہے۔
ایک شہری، عبدالرزاق، جو کہ کوئٹہ کے نواحی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، کا کہنا ہے:
"ہم روز کماتے ہیں اور روز کھاتے ہیں۔ جب آٹے جیسی بنیادی ضرورت اتنی مہنگی ہو جائے تو ہم بچوں کو کھلائیں یا دوائی لیں؟”
اسی طرح ایک خاتون نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ راشن لینے گئیں تو دکاندار نے کہا کہ آٹا صرف ان لوگوں کو ملے گا جو دیگر اشیاء بھی خریدیں گے، ورنہ دستیاب نہیں۔
سیاسی ردِعمل
حالیہ بحران پر اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن ارکان کا کہنا ہے کہ محکمہ خوراک کی نااہلی نے صوبے کو سنگین بحران میں دھکیل دیا ہے، جس کی ذمہ داری براہِ راست وزیراعلیٰ اور متعلقہ وزراء پر عائد ہوتی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علماء اسلام (ف)، اور بلوچستان نیشنل پارٹی سمیت دیگر جماعتوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اس تمام صورتحال کی شفاف انکوائری کی جائے اور ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
ماہرین کی رائے
ماہرین معاشیات اور خوراک کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں گندم اور آٹے کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ صرف طلب و رسد کے اصولوں کی بنیاد پر نہیں ہوا، بلکہ یہ بدانتظامی اور منصوبہ بندی کے فقدان کا نتیجہ ہے۔
اگر مارچ اور اپریل میں گندم کی بروقت خریداری کی جاتی تو آج صوبے کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ اس کے علاوہ اگر سٹاک میں موجود گندم کو بہتر طریقے سے محفوظ کیا جاتا تو نہ صرف مالی نقصان سے بچا جا سکتا تھا بلکہ موجودہ قلت سے بھی بچا جا سکتا تھا۔
ممکنہ حل اور اقدامات
موجودہ بحران سے نکلنے کے لیے حکومت بلوچستان کو ہنگامی بنیادوں پر درج ذیل اقدامات کرنے ہوں گے:
فوری درآمد یا خریداری: فوری طور پر دیگر صوبوں یا وفاق سے گندم کی فراہمی کے لیے بات چیت کی جائے، تاکہ آٹے کی قیمتوں کو کنٹرول کیا جا سکے۔
سبسڈی اسکیم: کم آمدنی والے افراد کے لیے سبسڈی پر آٹے کی فراہمی یقینی بنائی جائے تاکہ ان کی مشکلات میں کمی آ سکے۔
ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائی: آٹے کی مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، اور ذخیرہ اندوزوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔
تحقیقات اور احتساب: اس تمام معاملے کی آزادانہ اور شفاف انکوائری کروائی جائے، اور اگر کسی افسر یا وزیر کی کوتاہی یا کرپشن سامنے آتی ہے تو اسے مثال بنایا جائے۔
آئندہ کی حکمت عملی: گندم کی خرید و فروخت اور سٹاک مینجمنٹ کے لیے واضح پالیسی اور شفاف نظام وضع کیا جائے تاکہ مستقبل میں ایسے بحران سے بچا جا سکے۔
بلوچستان میں آٹے کا حالیہ بحران ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ یہ صرف آٹے کی قلت کا مسئلہ نہیں بلکہ عوام کے بنیادی حقوق، حکومتی شفافیت اور پالیسی سازی کی ناکامی کا مظہر ہے۔ جب تک صوبائی حکومت سنجیدگی سے اصلاحاتی اقدامات نہیں کرتی، عوام کو اس طرح کے بحرانوں کا سامنا رہے گا۔
یہ وقت ہے کہ حکومتی مشینری خوابِ غفلت سے بیدار ہو اور عوامی مشکلات کو اپنی اولین ترجیح بنائے، کیونکہ آٹا صرف ایک جنس نہیں بلکہ ایک بنیادی انسانی ضرورت ہے — اور اس کی عدم دستیابی ایک بڑی انسانی بحران کو جنم دے سکتی ہے۔
