پولیس ٹریننگ سینٹر ڈیرہ اسمٰعیل خان میں حملہ — بھارتی ہتھیاروں سے لیس دہشت گردوں کا خودکش حملہ، فائرنگ کا سلسلہ جاری، جوابی کارروائی میں 3 دہشتگرد ہلاک
ڈیرہ اسمٰعیل خان (رئیس الاخبار) :— خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسمٰعیل خان میں دہشت گردوں نے پولیس ٹریننگ سینٹر پر خودکش حملہ کر دیا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق بھارتی ساختہ اسلحے سے لیس 7 سے 8 دہشت گردوں نے ٹریننگ سینٹر پر اچانک دھاوا بولا، جس کے بعد علاقے میں شدید فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سجاد احمد کے مطابق ایک دہشت گرد نے خود کو ٹریننگ سینٹر کے مرکزی دروازے کے قریب دھماکے سے اڑا لیا، جب کہ پولیس کی جوابی کارروائی میں دو دہشت گرد مارے گئے ہیں۔
دھماکے کے بعد علاقے میں زبردست فائرنگ شروع ہو گئی۔ پولیس، ایلیٹ فورس اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (CTD) کے دستے موقع پر پہنچ گئے ہیں اور آپریشن جاری ہے۔
خودکش دھماکہ اور ابتدائی حملہ
عینی شاہدین کے مطابق ڈیرہ اسمٰعیل خان میں حملہ سہ پہر کے وقت اس وقت کیا گیا جب تربیتی سیشن مکمل ہونے والا تھا اور سینکڑوں اہلکار سینٹر کے احاطے میں موجود تھے۔ ایک دہشت گرد نے خودکش جیکٹ کے ذریعے داخلی دروازے پر دھماکہ کیا، جس سے عمارت کے شیشے ٹوٹ گئے اور دھواں پھیل گیا۔
ابتدائی طور پر پولیس نے ڈیرہ اسمٰعیل خان میں حملہ کی نوعیت “خودکش اور مسلح فائرنگ دونوں” بتائی ہے۔
ڈی پی او سجاد احمد نے کہا:
“ایک خودکش حملہ آور نے خود کو اڑا لیا، جب کہ باقی دہشت گرد فائرنگ کرتے ہوئے اندر داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہمارے جوانوں نے فوری جوابی کارروائی کی۔”
ڈیرہ اسمٰعیل خان پولیس ٹریننگ اسکول پر حملہ ناکام — 6 دہشت گرد ہلاک، 7 اہلکار شہید، شہداء کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی
بھارتی ہتھیاروں کا استعمال — حساس انکشاف
پولیس ذرائع کے مطابق مارے جانے والے دہشت گردوں سے بھارتی ساختہ اسلحہ، دستی بم، اور رائفلز برآمد ہوئیں۔ ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ان کے پاس موجود ہتھیار بھارتی سرحد کے قریب اسمگل کیے گئے تھے۔
سیکیورٹی حکام نے بتایا کہ دہشت گردوں کے پاس AK-203 رائفلز، جدید نائٹ ویژن آلات، اور بارودی مواد موجود تھا، جو عام طور پر بھارتی ملٹری گریڈ اسلحے میں استعمال ہوتا ہے۔
ایک سینیئر سیکیورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا:
“ ڈیرہ اسمٰعیل خان میں حملہ کسی عام دہشت گرد گروہ کا نہیں لگتا، بلکہ اس کے پیچھے ایک منظم نیٹ ورک اور غیر ملکی سرپرستی ہے۔”
علاقہ مکمل طور پر گھیرے میں — آپریشن کی قیادت ڈی پی او کر رہے ہیں
ڈی پی او سجاد احمد خود موقع پر موجود ہیں اور آپریشن کی نگرانی کر رہے ہیں۔
پولیس لائن اعجاز شہید سے اضافی نفری اور بکتر بند گاڑیاں طلب کر لی گئی ہیں۔ علاقے کے تمام داخلی و خارجی راستے بند کر دیے گئے ہیں۔
ریسکیو 1122 کے عملے نے زخمی اہلکاروں کو اسپتال منتقل کر دیا ہے۔ اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے، جب کہ شہریوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
عینی شاہدین کے بیانات
ایک عینی شاہد کے مطابق:
“ہم نے زوردار دھماکے کی آواز سنی، اس کے بعد ہر طرف فائرنگ شروع ہو گئی۔ دہشت گرد چاروں طرف سے فائرنگ کر رہے تھے۔ لوگ خوفزدہ ہو کر گھروں میں چھپ گئے۔”
ایک مقامی رہائشی نے بتایا کہ فائرنگ کا سلسلہ تقریباً آدھے گھنٹے تک جاری رہا، اور سیکیورٹی فورسز نے پورے علاقے کو کرفیو نما حالت میں بند کر دیا۔
حملے کے پیچھے ممکنہ منصوبہ بندی
ذرائع کے مطابق حملہ آور ممکنہ طور پر افغان سرحدی علاقے سے داخل ہوئے تھے، اور ان کا ہدف ٹریننگ سینٹر میں جاری کورس مکمل کرنے والے نئے ریکروٹس کو نشانہ بنانا تھا۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ یہ کارروائی پاکستان میں امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کے لیے سرحد پار سے کی گئی۔
پولیس اور فوج کا مشترکہ ردعمل
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق پاک فوج کی کوئیک رسپانس فورس (QRF) نے بھی علاقے میں محاصرہ کر لیا ہے۔ فوجی ہیلی کاپٹر فضا سے نگرانی کر رہے ہیں تاکہ کوئی دہشت گرد فرار نہ ہو سکے۔
پولیس ترجمان نے بتایا کہ دو دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے جبکہ تین سے چار اب بھی مزاحمت کر رہے ہیں۔
نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں تاخیر، دہشتگردی میں اضافہ: ڈی جی آئی ایس پی آر
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا ردِعمل
نگران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے ڈیرہ اسمٰعیل خان میں حملہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ
“یہ پاکستان کے دشمنوں کی بزدلانہ کارروائی ہے۔ پولیس نے اپنی جانوں پر کھیل کر دہشت گردوں کے عزائم ناکام بنائے۔”
انہوں نے سیکیورٹی اداروں کو ہدایت کی کہ دہشت گردوں کا مکمل صفایا کیا جائے اور زخمی اہلکاروں کو بہترین طبی سہولتیں فراہم کی جائیں۔
تحقیقات کا آغاز اور ممکنہ روابط
پولیس اور حساس اداروں نے علاقے سے شواہد اکٹھے کرنا شروع کر دیے ہیں۔ جائے وقوعہ سے بھارتی ساختہ کارتوس، واکی ٹاکی، اور ایک سیٹلائٹ فون برآمد ہوا ہے، جس سے یہ شبہ مزید گہرا ہو گیا ہے کہ دہشت گردوں کو بھارت سے براہ راست رابطہ اور ہدایات دی جا رہی تھیں۔
ذرائع کے مطابق سیٹلائٹ فون سے ملنے والے نمبرز کی ٹریسنگ کا عمل شروع کر دیا گیا ہے، جس سے مستقبل میں دہشت گرد نیٹ ورک تک پہنچنے کی امید ہے۔

علاقے میں خوف و ہراس اور سیکیورٹی ہائی الرٹ
دھماکے اور فائرنگ کے بعد پورے ڈیرہ اسمٰعیل خان میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے ہیں، اور شہریوں کو گھروں تک محدود رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
پولیس نے شہر بھر میں کیمپوں اور چوکیوں پر اضافی دستے تعینات کر دیے ہیں۔ داخلی راستوں پر گاڑیوں کی چیکنگ سخت کر دی گئی ہے۔
سیاسی قیادت کا ردعمل
وفاقی وزراء اور اپوزیشن رہنماؤں نے بھی اس حملے کی مذمت کی ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا:
“دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا۔ بھارتی ہتھیاروں کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی بیرونی کوششیں جاری ہیں۔”
تحریک انصاف کے سابق وزیراعلیٰ نے بیان دیا کہ
“پولیس جوانوں نے اپنی جان پر کھیل کر عوام کو محفوظ رکھا، ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔”
ماضی کے حملوں سے مماثلت
ماہرین کے مطابق یہ حملہ 2023 میں بنوں اور 2024 میں لکی مروت میں پولیس پر ہونے والے حملوں سے مشابہ ہے، جہاں دہشت گردوں نے خودکش دھماکوں اور مسلح حملوں کو یکجا کر کے تباہی مچانے کی کوشش کی تھی۔
عالمی ردِعمل
اقوامِ متحدہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان میں امن دشمن کارروائیوں کی مذمت کی جاتی ہے، اور عالمی برادری کو دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کی حمایت جاری رکھنی چاہیے۔
پاکستان کے لیے نیا سیکیورٹی چیلنج
ڈیرہ اسمٰعیل خان میں حملہ (dera ismail khan blast)ایک بار پھر اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کے دشمن عناصر سرحد پار سے دہشت گردی کو منظم طریقے سے ہوا دے رہے ہیں۔
حکومتی ذرائع کے مطابق، آنے والے دنوں میں پوری صوبائی سطح پر کاؤنٹر ٹیرر آپریشن شروع کیا جائے گا تاکہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو جڑ سے اکھاڑا جا سکے۔
🚨 Attack in Dera Ismail Khan, Pakistan
Gunmen target Police Training Center in Panjab region. Heavy firing reported; casualties unknown.#Pakistan #DIKhan #BreakingNews pic.twitter.com/St3ZH0lRE1
— Nihal Kumar (@NihalJrn) October 10, 2025
Comments 1