ایف بی آر نے گریڈ 17 تا 22 کے افسران کے لیے اثاثے ظاہر کرنا لازمی قرار دے دیا
اسلام آباد – فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) نے ایک اہم اقدام کے تحت گریڈ 17 سے 22 تک کے تمام سرکاری افسران کے لیے اثاثے ظاہر کرنا لازمی قرار دے دیا ہے۔ اس مقصد کے لیے سول سرونٹس رولز میں ترمیم کا باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف وفاقی و صوبائی حکومتوں بلکہ خودمختار اداروں، کارپوریشنز اور پبلک سیکٹر آرگنائزیشنز کے لیے بھی یکساں طور پر لاگو ہوگا۔
قانون میں ترمیم کیوں ضروری سمجھی گئی؟
ایف بی آر کے مطابق یہ قدم انتظامی شفافیت، احتساب اور مالیاتی نظم و ضبط کے فروغ کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان کے اقتصادی اصلاحاتی پروگرام، خصوصاً انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (IMF) کی شرائط کے تناظر میں کیا گیا ہے، جہاں سرکاری ملازمین کے مالیاتی اثاثوں کی شفافیت کو اہم اصلاحات میں شامل کیا گیا ہے۔
ترمیمی قواعد انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی دفعہ 237 کے تحت تیار کیے گئے ہیں، جس کے ذریعے افسران کے اثاثہ جات کے گوشواروں کی نگرانی اور تبادلے کے نظام کو زیادہ فعال اور مؤثر بنایا جائے گا۔
پبلک سرونٹ کی نئی تعریف کیا ہے؟
ایف بی آر کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں "پبلک سرونٹ” کی نئی تعریف متعارف کرائی گئی ہے، جس کے مطابق اب یہ اصطلاح صرف گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے افسران پر لاگو ہوگی۔ اس میں وہ تمام افسران شامل ہوں گے جو:
- وفاقی یا صوبائی حکومت کے ملازم ہوں
- کسی خودمختار ادارے یا کارپوریشن میں کل وقتی عہدے پر فائز ہوں
- پبلک فنڈز یا قومی اثاثوں کے انتظام میں شامل ہوں
- البتہ نیب آرڈیننس 1999 کے تحت جن افراد کو قانونی استثنیٰ حاصل ہے، وہ اس تعریف میں شامل نہیں ہوں گے۔
نوٹیفکیشن میں کیا کہا گیا ہے؟
ایف بی آر کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ:
"ترمیمی قواعد کا مقصد سول سرونٹس کے اثاثہ جات کے ڈکلیئریشن کے نظام کو بہتر بنانا، شفافیت کو فروغ دینا، اور انتظامی عمل کو زیادہ ذمہ دار بنانا ہے۔”
نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ان ترمیمی قواعد پر اپنی آراء و تجاویز سات دن کے اندر اندر جمع کروا سکتے ہیں۔ اس کے بعد موصول ہونے والی کوئی بھی رائے قابلِ قبول نہیں سمجھی جائے گی۔
مجوزہ ترامیم کا دائرہ کار کیا ہوگا؟
یہ ترمیمی قواعد صرف چند مخصوص شعبوں تک محدود نہیں ہوں گے، بلکہ ان کا اطلاق درج ذیل اداروں اور افسران پر بھی ہوگا:
- وفاقی و صوبائی سیکریٹریز
- چیف سیکریٹریز اور کمشنرز
- پولیس، رینجرز اور سیکیورٹی اداروں کے سینئر افسران
- مرکزی و صوبائی ٹیکس اتھارٹیز
- پبلک سیکٹر کمپنیز اور مالیاتی اداروں کے سی ای اوز
- خودمختار کمیشنز، اتھارٹیز اور ریگولیٹری باڈیز
نظام کیسے کام کرے گا؟
مجوزہ ترامیم کے مطابق:
- ہر سال گریڈ 17 سے 22 کے افسران کو اپنے اثاثہ جات اور واجبات کی تفصیل ایف بی آر کے پاس جمع کرانا ہوگی۔
- یہ گوشوارے ایف بی آر کے ڈیجیٹل نظام کے ذریعے محفوظ کیے جائیں گے۔
- ان اثاثہ جات کی تصدیق نادرا، بینکنگ سسٹم، اور پراپرٹی ریکارڈز سے کی جائے گی۔
اگر کسی افسر کے اثاثے اس کی آمدنی سے مطابقت نہ رکھتے ہوں تو تحقیقات اور ممکنہ کارروائی کا آغاز ہو سکتا ہے۔
کیا یہ صرف آئی ایم ایف کی شرط ہے؟
بظاہر تو یہ قانون آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ایک طے شدہ شرط کے طور پر سامنے آیا ہے، جس میں شفافیت، ٹیکس نیٹ کی توسیع اور پبلک فنانس مینجمنٹ کو بہتر بنانا شامل تھا۔ تاہم، کئی حلقوں کا ماننا ہے کہ یہ اقدام داخلی سیاسی اور عوامی دباؤ کے تحت بھی لیا جا رہا ہے، کیونکہ ملک میں سرکاری بدعنوانی سے عوام سخت نالاں ہیں۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ:
"یہ ایک مثبت قدم ہے، لیکن اگر اس پر صرف فائل ورک ہو اور عملی نفاذ نہ ہو، تو یہ محض ایک کاغذی کاروائی بن کر رہ جائے گا۔”
شفافیت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سرکاری افسران کے اثاثے ظاہر کرنے کے عمل کو عوامی رسائی کے لیے بھی کھولا جانا چاہیے تاکہ حقیقی احتساب ہو سکے۔
ممکنہ رکاوٹیں اور خدشات
اس قانون کے نفاذ میں کچھ رکاوٹیں بھی ہو سکتی ہیں، جن میں شامل ہیں:
- بیوروکریسی کی مزاحمت: کئی افسران نجی مالیاتی معلومات ظاہر کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہو سکتے ہیں۔
- قانونی چیلنجز: اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر رازداری کے اصولوں کی بنیاد پر۔
- سیاسی استعمال کا خدشہ: بعض تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ یہ قانون سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔
عوامی مفاد اور نتیجہ
اس اقدام کے ذریعے پاکستان میں سرکاری نظام میں شفافیت اور اعتماد کی بحالی ممکن ہے۔ اگر یہ قانون بلا تفریق، سختی سے، اور مکمل شفافیت کے ساتھ نافذ کیا جائے، تو اس سے نہ صرف بدعنوانی کی روک تھام میں مدد ملے گی بلکہ ریاستی اداروں پر عوام کا اعتماد بھی بحال ہوگا۔
لیکن اگر یہ قانون بھی دیگر اصلاحات کی طرح صرف "فائلوں میں دفن” ہو گیا، تو اس کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ:
- قانون پر مکمل عملدرآمد ہو
- ہر سال ایک عوامی رپورٹ جاری کی جائے
- تمام اثاثوں کی آزادانہ تصدیق کی جائے
اس قانون کے نفاذ میں سیاسی مداخلت کو مکمل طور پر روکا جائے
ایف بی آر کا یہ اقدام ایک نیا آغاز ہو سکتا ہے — ایک ایسا آغاز جو پاکستان کے بیوروکریٹک ڈھانچے میں شفافیت اور جواب دہی کے کلچر کو فروغ دے۔ لیکن یہ صرف تب ہی ممکن ہے جب یہ قدم کسی ایجنڈے کے بغیر، مکمل غیر جانب داری کے ساتھ اٹھایا جائے، اور اس پر عملدرآمد بھی اتنا ہی سنجیدہ ہو جتنا کہ قانون بنانے کا عمل
