غزہ جنگ بندی معاہدہ نافذ، عالمی رہنماؤں کا خیرمقدم
غزہ میں جنگ بندی کا نفاذ: ایک امید، ایک وقفہ، یا ایک نیا آغاز؟
مہینوں سے جاری خونریزی، بربادی، اور انسانی المیے کے بعد بالآخر غزہ میں اسرائیل کی مسلسل بمباری کے بعد جنگ بندی کا ایک نیا معاہدہ طے پا گیا ہے، جو پاکستانی وقت کے مطابق دوپہر دو بجے نافذالعمل ہو گیا۔ یہ معاہدہ نہ صرف غزہ کے محصور اور زخم خوردہ عوام کے لیے ایک وقتی سانس لینے کا موقع فراہم کرتا ہے بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی ایک بڑی پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ مصر نے ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے اس معاہدے کو ممکن بنایا، جس پر مختلف عالمی رہنماؤں نے خیرمقدم کیا ہے۔
جنگ بندی: عارضی وقفہ یا پائیدار امن کی امید؟
غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت نے اب تک ہزاروں بے گناہ فلسطینیوں کی جانیں لے لی ہیں، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ اسرائیلی فضائی حملے، زمینی کارروائیاں اور محاصرے نے پورے علاقے کو انسانی بحران میں دھکیل دیا ہے۔ ان حالات میں جنگ بندی کا معاہدہ یقیناً ایک مثبت قدم ہے، تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ صرف ایک عارضی وقفہ ہے یا کسی پائیدار امن کی طرف پیش قدمی؟
معاہدے کے تحت فوری طور پر فائر بندی کی گئی ہے، اور بعض انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کی اجازت دی گئی ہے۔ اسرائیلی ذرائع کے مطابق، اس معاہدے کے تحت غزہ سے تقریباً 20 یرغمالیوں کی رہائی اتوار یا پیر کو متوقع ہے، جنہیں اکتوبر کے حملوں کے دوران قید کیا گیا تھا۔
مصر کا سفارتی کردار
مصر نے ایک بار پھر خطے میں ثالثی اور امن قائم کرنے کے لیے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ مصری وزارت خارجہ نے اس جنگ بندی کو "ایک اہم موڑ” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ شرم الشیخ میں ہونے والی سفارتی پیش رفت غزہ میں جنگ کے اختتام کی امید پیدا کرتی ہے۔
مصری صدر نے بھی اس معاہدے کی تصدیق کی ہے کہ دونوں فریقین جنگ بندی پر متفق ہو چکے ہیں اور اب وقت ہے کہ اس موقع کو ضائع نہ کیا جائے۔ مصری وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی آج پیرس روانہ ہو رہے ہیں جہاں وہ ایک وزارتی اجلاس میں شرکت کریں گے، جس میں خطے کی صورتحال اور مستقبل کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
عالمی ردعمل: خیرمقدم، مگر احتیاط
اقوامِ متحدہ، یورپی یونین، ترکی، چین، اور کئی دیگر ممالک نے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اس معاہدے کو انسانی جانوں کے تحفظ کا ایک موقع قرار دیا، جبکہ یورپی یونین نے کہا کہ اب اصل امتحان اس جنگ بندی پر مکمل عملدرآمد ہے۔
تاہم بعض بین الاقوامی مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی سابقہ جنگ بندیوں کی تاریخ بہت حوصلہ افزا نہیں رہی۔ اکثر جنگ بند ہونے کے بعد بھی فلسطینی علاقوں میں چھاپے، گرفتاریوں، اور حملے جاری رہے ہیں۔ اس لیے موجودہ معاہدے کو بھی شدید نگرانی اور بین الاقوامی دباؤ کے تحت برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔
انسانی بحران کی شدت
جنگ بندی کے باوجود، غزہ کی صورتحال اب بھی سنگین ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق، غزہ کی 70 فیصد آبادی خوراک، ادویات، اور صاف پانی کی شدید قلت کا سامنا کر رہی ہے۔ ہزاروں گھر تباہ ہو چکے ہیں، اسپتال ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں، اور متاثرین کی بحالی ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔
بین الاقوامی تنظیمیں جیسے ریڈ کراس اور میڈیسن سانس فرنٹیئر (Doctors Without Borders) نے فوری انسانی امداد کی اپیل کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ جنگ بندی ہوئی ہے، لیکن جب تک عملی امداد نہیں پہنچتی، تب تک غزہ کے عوام حقیقی سکون نہیں پا سکتے۔
اسرائیلی مؤقف اور یرغمالیوں کی رہائی
اسرائیل کی جانب سے جاری بیانات میں کہا گیا ہے کہ وہ جنگ بندی پر عمل درآمد کے لیے تیار ہے، تاہم وہ اپنے شہریوں کی بازیابی اور حماس کی "دہشتگردانہ سرگرمیوں” کے خاتمے تک مکمل طور پر مطمئن نہیں۔ اسرائیلی حکام کے مطابق، غزہ سے 20 یرغمالیوں کی ممکنہ رہائی اس معاہدے کا حصہ ہے، جو کہ ایک بڑی انسانی اور سیاسی کامیابی تصور کی جا رہی ہے۔
یہ بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مستقبل قریب میں مزید قیدیوں کا تبادلہ ہو سکتا ہے، جس کے لیے قطر، مصر اور ترکی سمیت کئی ممالک ثالثی کے کردار میں سرگرم ہیں۔
فلسطینی عوام کی توقعات
غزہ کے عوام کے لیے یہ جنگ بندی ایک سانس لینے کا وقفہ ضرور ہے، لیکن اس کے ساتھ ان کے دل میں یہ سوال بھی شدت سے موجود ہے کہ کیا عالمی برادری صرف عارضی جنگ بندیوں سے مطمئن ہے یا وہ فلسطینیوں کے بنیادی حقوق، ریاست، اور خودمختاری کے مسئلے کو بھی سنجیدگی سے دیکھے گی؟
حماس اور دیگر فلسطینی جماعتوں نے اس جنگ بندی کو فتح قرار دیا ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ جب تک فلسطین آزاد نہیں ہوتا اور اسرائیلی قبضہ ختم نہیں ہوتا، حقیقی امن قائم نہیں ہو سکتا۔
آئندہ کیا ہوگا؟
یہ جنگ بندی معاہدہ صرف ایک "وقفہ” ہے یا ایک "نیا آغاز” — اس کا انحصار آنے والے دنوں کی پیش رفت پر ہے۔ اگر فریقین سنجیدگی سے مذاکرات کریں، عالمی قوتیں جانبدار کردار ادا نہ کریں، اور فلسطینی عوام کو انصاف فراہم کیا جائے تو شاید یہ جنگ بندی پائیدار امن کی بنیاد بن سکتی ہے۔
تاہم اگر اسرائیلی فوج دوبارہ حملے کرتی ہے، یا انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں، تو یہ جنگ بندی ایک اور ناکام کوشش بن کر رہ جائے گی، جیسے ماضی میں کئی بار ہو چکا ہے۔
ایک موقع، جسے ضائع نہیں ہونا چاہیے
غزہ میں جنگ بندی کا نفاذ ایک انتہائی اہم موڑ ہے۔ یہ نہ صرف فوری انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہے بلکہ آنے والے وقت میں ایک پائیدار سیاسی حل کی بنیاد بھی بن سکتا ہے۔ مصر کا کردار، عالمی برادری کی شمولیت، اور فریقین کی سنجیدگی اس معاہدے کی کامیابی یا ناکامی کا تعین کرے گی۔


Comments 2