سویڈن کی معروف ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ نے ایک مرتبہ پھر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ دیا۔ اسرائیلی حراست سے رہائی کے بعد انہوں نے کہا کہ اسرائیل ایک پوری قوم کو مٹانے کی کوشش کر رہا ہے، اور غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ انسانیت کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔
گریٹا تھنبرگ غزہ بیان — گرفتاری اور رہائی کی تفصیل
گزشتہ ہفتے گریٹا تھنبرگ سمیت درجنوں کارکنان کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب انہوں نے "گلوبل صمود فلوٹیلا” کے ذریعے غزہ کے محاصرے کو توڑنے اور امداد پہنچانے کی کوشش کی۔
اس کارروائی کے دوران اسرائیلی افواج نے تمام کارکنان کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کیا۔ بعدازاں تمام کارکنوں کو رہائی کے بعد یونان منتقل کر دیا گیا جہاں فلسطین کے حامیوں نے ان کا زبردست خیرمقدم کیا۔
اسرائیلی حراست میں ظلم اور تشدد
رپورٹس کے مطابق، اسرائیلی حراست کے دوران گریٹا تھنبرگ اور ان کے ساتھیوں کو تشدد، بھوک اور نیند کی محرومی کا سامنا کرنا پڑا۔
کئی کارکنان نے الزام لگایا کہ:
انہیں پنجروں میں بند رکھا گیا،
آنکھوں پر پٹیاں باندھی گئیں،
مار پیٹ کا نشانہ بنایا گیا،
حتیٰ کہ بعض کو زبردستی اسرائیلی پرچم اٹھانے پر مجبور کیا گیا۔
یہ تمام مظالم اس وقت کے ہیں جب اقوام متحدہ اور دیگر ادارے اسرائیل کے اقدامات پر خاموش ہیں۔
گریٹا تھنبرگ غزہ بیان — ایتھنز میں جذباتی خطاب
یونان کے دارالحکومت ایتھنز پہنچنے کے بعد گریٹا تھنبرگ نے ایک پرجوش خطاب میں کہا:
“غزہ میں نسل کشی جاری ہے۔ بین الاقوامی ادارے فلسطینیوں کو دھوکہ دے رہے ہیں اور جنگی جرائم روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا:
“ہم پر جو ظلم ہوا وہ اہم نہیں۔ اصل ظلم وہ ہے جو غزہ میں ہورہا ہے، جہاں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور اسرائیل انسانی امداد روک کر بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی کر رہا ہے۔”
فلسطینی عوام کے لیے عالمی یکجہتی کی اپیل
گریٹا تھنبرگ کا کہنا تھا کہ دنیا کو غزہ میں ہونے والے قتل عام پر آنکھیں بند نہیں کرنی چاہییں۔
انہوں نے کہا کہ:
“یہ وقت خاموش رہنے کا نہیں۔ اگر ہم آج بھی خاموش رہے تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔”
انہوں نے نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہوں، کیونکہ یہ صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی حقوق کا امتحان ہے۔
گریٹا تھنبرگ کی سرگرمیاں اور فلسطین سے وابستگی
گریٹا تھنبرگ اپنے ماحولیاتی شعور اور انسانی حقوق کی حمایت کے لیے دنیا بھر میں جانی جاتی ہیں۔
پچھلے ایک سال سے وہ فلسطینیوں کے لیے بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر آواز اٹھا رہی ہیں۔
انہوں نے سوشل میڈیا پر کئی بار #FreePalestine مہم میں حصہ لیا اور اسرائیلی بمباری کو عالمی ضمیر کی شکست قرار دیا۔

بین الاقوامی ردعمل
گریٹا تھنبرگ کے غزہ بیان کے بعد عالمی سطح پر کئی انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان کی حمایت کی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ اسرائیل انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی کر رہا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق غزہ میں جاری مظالم کو نسل کشی قرار دیا جانا چاہیے۔
سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگز #GretaThunberg اور #StandWithGaza ٹرینڈ کرنے لگے۔
غزہ کی موجودہ صورتحال
اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں اب تک 67 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور 1 لاکھ 70 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
20 لاکھ سے زیادہ شہری خوراک، پانی اور دواؤں کی کمی کا شکار ہیں، جب کہ اسرائیلی بمباری نے ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کو کھنڈر بنا دیا ہے۔

گریٹا تھنبرگ کے مطابق، یہ سب کچھ عالمی طاقتوں کی غفلت اور دوہرے معیار کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
گریٹا تھنبرگ کا غزہ بیان — عالمی ضمیر کے لیے پیغام
گریٹا نے کہا کہ:
“ہم اگر واقعی انصاف چاہتے ہیں تو ہمیں فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ یہ صرف ایک ملک نہیں، ایک انسانیت کا مسئلہ ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ دنیا کے ہر کونے میں لوگ اپنی آواز بلند کریں تاکہ فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم رک سکیں۔
گریٹا تھنبرگ کی آواز انسانیت کی پکار
گریٹا تھنبرگ کا غزہ بیان صرف ایک سیاسی موقف نہیں بلکہ انسانی ضمیر کی بیداری کی علامت ہے۔
انہوں نے دکھایا کہ ایک نوجوان لڑکی بھی عالمی طاقتوں کو چیلنج کر سکتی ہے، اگر اس کے دل میں انسانیت زندہ ہو۔
غزہ کی تباہی کے باوجود فلسطینی عوام کا حوصلہ زندہ ہے — اور گریٹا جیسی آوازیں امید کی نئی کرن ہیں۔
گریٹا تھنبرگ سمیت گلوبل صمود امدادی فلوٹیلا کے 171 ارکان ڈی پورٹ