پاکستان میں اعلیٰ عدلیہ اور جامعات ہمیشہ بحث کا مرکز رہی ہیں، بالخصوص جب معاملہ کسی جج یا اعلیٰ عہدیدار کی تعلیمی اسناد سے متعلق ہو۔ حال ہی میں جامعہ کراچی ڈگری منسوخی کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ایل ایل بی ڈگری کالعدم قرار دے دی گئی ہے۔ اس اقدام نے نہ صرف عدالتی حلقوں میں ہلچل پیدا کی ہے بلکہ عوامی سطح پر بھی بڑے سوالات کو جنم دیا ہے۔
جامعہ کراچی کا فیصلہ
جامعہ کراچی کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق طارق محمود ولد قاضی محمد اکرم کی ایل ایل بی ڈگری منسوخ کر دی گئی ہے۔ نوٹیفکیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ طالبعلم پر غیر منصفانہ ذرائع استعمال کرنے کا الزام ثابت ہوا، جس کے نتیجے میں ان پر 3 سال تک کسی بھی تعلیمی ادارے میں داخلے یا امتحان دینے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب مختلف اداروں کی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ طارق محمود کبھی بھی اسلامیہ لاء کالج کراچی کے باقاعدہ طالبعلم نہیں تھے۔ اس انکشاف نے پورے کیس کی سمت بدل دی اور بالآخر جامعہ کراچی نے ڈگری منسوخی کا اعلان کیا۔
غیر منصفانہ ذرائع کے الزامات
اعلامیے میں واضح طور پر کہا گیا کہ طالبعلم نے غیر منصفانہ ذرائع استعمال کیے، جسے جامعہ کراچی نے قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔ پاکستان میں تعلیمی اداروں کی ساکھ پہلے ہی کئی چیلنجز سے دوچار ہے، اور جامعہ کراچی ڈگری منسوخی کا یہ فیصلہ ایک مثال کے طور پر سامنے آیا ہے تاکہ مستقبل میں دیگر طلبہ اس طرح کے اقدامات سے باز رہیں۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری کا پس منظر
جسٹس طارق محمود جہانگیری کا شمار ان ججز میں ہوتا ہے جنہوں نے عدلیہ میں مختلف مقدمات پر نمایاں کردار ادا کیا۔ تاہم ان کی تعلیمی ڈگری پر سوالیہ نشان لگنے کے بعد نہ صرف ان کی ساکھ متاثر ہوئی بلکہ عدالتی نظام پر بھی تنقیدی نگاہیں ڈال دی گئی ہیں۔
پاکستانی عدلیہ کو ہمیشہ شفافیت اور میرٹ کے تقاضوں پر کھرا اترنے کی ضرورت رہی ہے، لیکن جامعہ کراچی ڈگری منسوخی کے بعد یہ سوال شدت اختیار کر گیا ہے کہ عدلیہ کے جج بننے کے لیے اسناد کی جانچ کس سطح پر ہونی چاہیے۔
عدلیہ پر اثرات
یہ فیصلہ نہ صرف ایک جج کی ذاتی زندگی بلکہ عدلیہ کی ساکھ پر بھی براہِ راست اثر انداز ہوگا۔ عوامی سطح پر پہلے ہی عدلیہ پر اعتماد کے حوالے سے تحفظات پائے جاتے ہیں، اور اب ڈگری منسوخی کے اس اقدام نے مزید سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
کیا کوئی ایسا میکانزم موجود ہے جو تعلیمی اسناد کی بروقت جانچ کر سکے؟ کیا مستقبل میں ججز کی تقرری کے عمل میں زیادہ سختی برتی جائے گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو اس وقت مختلف حلقوں میں زیرِ بحث ہیں۔
پاکستان میں جعلی ڈگریوں کا مسئلہ
پاکستان میں جعلی اور مشکوک ڈگریوں کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ ماضی میں کئی سیاستدانوں اور سرکاری افسران کی ڈگریاں بھی منسوخ ہو چکی ہیں۔ لیکن اس بار چونکہ معاملہ ایک جج کا ہے، اس لیے اس کی سنگینی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔
جامعہ کراچی ڈگری منسوخی نے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا ہے کہ تعلیمی نظام میں خامیاں موجود ہیں جنہیں دور کرنا ناگزیر ہے۔
قانونی ماہرین کی رائے
قانونی ماہرین کے مطابق اگر کسی جج کی ڈگری منسوخ ہو جائے تو اس کے فیصلوں پر بھی سوالیہ نشان لگ سکتے ہیں۔ یہ ایک نہایت پیچیدہ صورتحال ہے جس کا براہِ راست تعلق عدالتی فیصلوں کی قانونی حیثیت سے جڑتا ہے۔
بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ اس معاملے کو صرف ایک تعلیمی ادارے کی کارروائی کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ اس پر عدالتی سطح پر بھی کارروائی ہونی چاہیے تاکہ انصاف کے تمام تقاضے پورے ہوں۔
جامعہ کراچی کے فیصلے کے مضمرات
یہ فیصلہ مستقبل میں دیگر طلبہ کے لیے بھی ایک بڑا پیغام ہے کہ اگر وہ غیر قانونی ذرائع استعمال کریں گے تو ان کے خلاف سخت کارروائی ہو سکتی ہے۔ جامعہ کراچی ڈگری منسوخی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ ادارہ کسی بھی دباؤ یا شخصیت کو خاطر میں لائے بغیر قوانین پر عمل درآمد کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
عوامی ردِعمل
سوشل میڈیا پر اس خبر نے خاصی توجہ حاصل کی۔ کئی صارفین نے اسے عدلیہ کے لیے ایک امتحان قرار دیا، جبکہ کچھ نے جامعہ کراچی کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ ایک مثبت قدم ہے جو نظام میں شفافیت لانے کا باعث بنے گا۔
مستقبل کے امکانات
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس فیصلے کے بعد جسٹس طارق محمود جہانگیری کے عدالتی کیریئر پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کیا ان کی تقرری برقرار رہے گی یا ان کے خلاف مزید کارروائی ہوگی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب آنے والے دنوں میں واضح ہوں گے۔
آخرکار یہ کہا جا سکتا ہے کہ جامعہ کراچی ڈگری منسوخی نہ صرف ایک انفرادی معاملہ ہے بلکہ یہ پورے نظام کے لیے ایک بڑا سبق ہے۔ پاکستان میں شفافیت، میرٹ اور قانون کی بالادستی کے لیے یہ فیصلہ ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔
ایمان مزاری شکایت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ، انکوائری کمیٹی متحرک