خلیل الحیہ کی زندگی کی تصدیق: حماس رہنما نے اسرائیلی دعوؤں کو جھوٹا ثابت کیا
خلیل الحیہ کی واپسی
حماس کے سینئر رہنما اور جنگ بندی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ خلیل الحیہ نے حال ہی میں منظر عام پر آ کر اسرائیلی دعوؤں کی تردید کی ہے کہ وہ قطر کے دارالحکومت دوحا میں ہونے والے فضائی حملے میں شہید ہو گئے تھے۔ خلیل الحیہ نے عرب ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اپنی زندگی کی تصدیق کی اور بتایا کہ اس حملے میں ان کا بیٹا اور چیف آف اسٹاف شہید ہوئے۔ ان کا منظر عام پر آنا نہ صرف اسرائیلی پروپیگنڈے کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ حماس کے لیے ایک علامتی فتح بھی ہے۔
اسرائیلی حملہ اور دعوے
گزشتہ ماہ اسرائیل نے دوحا میں ایک فضائی حملہ کیا تھا، جس کا مقصد حماس کے اہم رہنماؤں بشمول خلیل الحیہ کو نشانہ بنانا تھا۔ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ خلیل الحیہ اس حملے میں شہید ہو گئے، لیکن حماس نے فوری طور پر اس خبر کی تردید کی۔ خلیل الحیہ نے خود اس حملے کے بعد اپنی زندگی کی تصدیق کی اور بتایا کہ وہ محفوظ ہیں، جبکہ ان کے خاندان اور قریبی ساتھیوں نے بھاری نقصان اٹھایا۔
خلیل کا انٹرویو
عرب ٹی وی کے ساتھ اپنے پہلے انٹرویو میں خلیل الحیہ نے نہ صرف اپنی زندگی کی تصدیق کی بلکہ اس حملے کے اثرات پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا بیٹا اور چیف آف اسٹاف اس حملے میں شہید ہوئے، اور انہوں نے خود ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ خلیل الحیہ نے اپنے عزم کا اعادہ کیا کہ وہ فلسطینی مزاحمت کی قیادت جاری رکھیں گے اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ ان کا یہ بیان حماس کے کارکنوں اور حامیوں کے لیے ایک بڑا حوصلہ ہے۔
بین الاقوامی ردعمل
اسرائیل کی جانب سے قطر جیسے غیر جانبدار ملک میں حملہ کرنے پر عالمی برادری نے شدید تنقید کی۔ قطر ایک سفارتی مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے، اور اس طرح کے حملے کو بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی سمجھا گیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ اسرائیل آئندہ قطر میں اس طرح کی کارروائیاں نہیں کرے گا، جو اس واقعے کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔ خلیل الحیہ کا زندہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیلی فوج کے دعوے جھوٹ پر مبنی تھے۔
حماس کے لیے علامتی فتح
خلیل کا منظر عام پر آنا حماس کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ واقعہ اسرائیلی پروپیگنڈے کی ناکامی اور حماس کی استقامت کو ظاہر کرتا ہے۔ خلیل الحیہ نہ صرف حماس کے ایک اہم رہنما ہیں بلکہ وہ جنگ بندی مذاکرات میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی زندگی کی تصدیق سے حماس کے کارکنوں میں ایک نئی روح پھونکی گئی ہے۔
خلیل الحیہ کا کردار
خلیل الحیہ حماس کے ایک سینئر رہنما ہیں جو تنظیم کے سیاسی اور عسکری دونوں شعبوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ جنگ بندی مذاکرات میں حماس کی نمائندگی کرتے ہیں اور فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔ ان کا تجربہ اور قائدانہ صلاحیتیں حماس کے لیے ناگزیر ہیں۔ خلیل الحیہ نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ وہ اپنی قوم کے لیے لڑتے رہیں گے، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔
اسرائیلی پروپیگنڈا اور اس کی ناکامی
اسرائیل نے ماضی میں بھی کئی بار حماس کے رہنماؤں کے خلاف جھوٹے دعوؤں کا سہارا لیا ہے۔ خلیل الحیہ کے زندہ ہونے سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوا کہ اسرائیلی دعوے اکثر پروپیگنڈے کا حصہ ہوتے ہیں۔ حماس نے اس واقعے کو اپنی استقامت اور مزاحمت کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔ خلیل الحیہ نے کہا کہ اسرائیلی حملوں سے ان کا عزم کمزور نہیں ہوگا بلکہ وہ مزید مضبوطی سے اپنے مقصد کے لیے لڑیں گے۔
قطر کا کردار
قطر نے فلسطینی گروپوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ کے طور پر کام کیا ہے، جہاں وہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں۔ اسرائیلی حملے نے قطر کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھائے، لیکن قطر نے اس کی شدید مذمت کی۔ خلیل الحیہ نے قطر کی حمایت پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ فلسطینی کاز کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
فلسطینی مزاحمت کی اہمیت
خلیل الحیہ کا منظر عام پر آنا فلسطینی مزاحمت کے لیے ایک اہم لمحہ ہے۔ حماس کے رہنما نے اپنے بیانات میں واضح کیا کہ وہ اسرائیلی جارحیت کے سامنے جھکیں گے اور نہ ہی ہتھیار ڈالیں گے۔ انہوں نے فلسطینی عوام سے اپیل کی کہ وہ متحد رہیں اور اپنے حقوق کے لیے لڑتے رہیں۔ خلیل الحیہ کی قیادت میں حماس نے کئی مواقع پر اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کیا ہے اور اس بار بھی انہوں نے اپنی استقامت کا ثبوت دیا۔
اسرائیل کا قطر دوحہ حملہ میں حماس کے رہنما خلیل الحیہ محفوظ رہےجبکہ انکے بیٹے اور معاون شہید
مستقبل کے امکانات
خلیل الحیہ کا زندہ رہنا اور منظر عام پر آنا حماس کے لیے ایک نئی حکمت عملی کی بنیاد بن سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ واقعہ حماس کو سیاسی اور عسکری طور پر مضبوط کرے گا۔ خلیل الحیہ نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ وہ جنگ بندی مذاکرات کو جاری رکھیں گے اور فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے رہیں گے۔ ان کا یہ عزم حماس کے لیے ایک نئی تحریک کا باعث بن سکتا ہے۔