خیبر پختونخوا سیلابی صورتحال : خیبر پختونخوا اور شمالی علاقوں میں تباہ کن بارشیں اور سیلابی ریلوں سے 340 سے زائد ہلاکتیں، پورے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے
اسلام آباد :— مون سون کے حالیہ اسپیل نے خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو شدید ترین بارشوں، کلاؤڈ برسٹ، لینڈ سلائیڈنگ اور سیلابی ریلوں کی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ پہاڑی سلسلوں سے اترتے طوفانی ریلوں نے نہ صرف بستیاں اجاڑ ڈالیں بلکہ کھیت، مکانات، پل، اسکول اور سرکاری عمارتیں بھی تباہ کر ڈالیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک 340 سے زائد افراد جاں بحق، درجنوں زخمی اور 134 سے زیادہ لاپتہ ہوچکے ہیں۔
خیبر پختونخوا سیلابی صورتحال بونیر میں قیامت صغریٰ: ایک ہی خاندان کے درجنوں افراد جاں بحق
اس المناک قدرتی آفت میں سب سے زیادہ تباہی خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر میں دیکھی گئی۔ بونیر کے کئی دیہات مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔
قادر نگر کے گاؤں درہ میں ایک ہی خاندان کے 40 افراد سیلابی ریلے کی نذر ہوگئے۔ 60 سالہ شاکراللہ نے نمائندہ کو بتایا:
“ہم نے اپنے ہی ہاتھوں سے 26 لاشیں دفن کیں، باقی 16 افراد اب تک ملبے میں دبے ہوئے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب ملیں گے اور کس حال میں ملیں گے۔”
اسی گاؤں کے سلیمان نے بتایا کہ ان کے بھتیجے کی شادی کی تیاریاں جاری تھیں، مگر خوشی کا موقع صف ماتم میں بدل گیا:
“بارات کے لیے سب تیاریاں مکمل تھیں لیکن اچانک آنے والے سیلاب نے میرے پورے خاندان کو بہا دیا۔ میرے 38 عزیز اس آفت کی نذر ہوگئے۔ ہمارا 35 کمروں پر مشتمل گھر بھی مکمل تباہ ہوگیا، صرف دو کمرے باقی بچے ہیں۔”
اجتماعی تدفین اور قبرستانوں کی کمی
بونیر میں اتنی بڑی تعداد میں اموات کے باعث قبرستان بھی کم پڑ گئے۔ بٹی گاؤں میں بیک وقت 45 قبریں کھودی گئیں۔ مقامی رہائشی عاطف کے مطابق مسجد سے اعلان ہوا تو ہر طرف کہرام مچ گیا، نوجوان لاشوں کی تدفین کے لیے دوڑتے دوڑتے قبرستان پہنچے۔
دیگر اضلاع خیبر پختونخوا سیلابی صورتحال
مانسہرہ: لینڈ سلائیڈنگ اور تودے گرنے کے باعث 20 افراد جاں بحق۔
باجوڑ: بارشوں اور زمین کھسکنے سے 21 افراد کی جانیں گئیں۔
سوات: دریا بپھرنے کے بعد مینگورہ اور ملحقہ علاقے ڈوب گئے، پل اور سڑکیں پانی میں بہہ گئیں۔
آزاد کشمیر: مظفرآباد میں کلاؤڈ برسٹ کے نتیجے میں ایک ہی خاندان کے 6 افراد سمیت 8 جانیں ضائع ہوئیں، مجموعی طور پر 13 اموات رپورٹ ہوئیں۔
گلگت بلتستان: کئی دیہات کا رابطہ مرکزی شاہراہ سے منقطع ہوگیا، بجلی اور پانی کا نظام درہم برہم ہوگیا۔
مکانات، اسکول اور ڈھانچے تباہ
خیبر پختونخوا سیلابی صورتحال حکومت کی رپورٹ کے مطابق:
2300 مکانات مکمل تباہ
413 مکانات جزوی نقصان کا شکار
6 سرکاری اسکول اور کئی پرائیویٹ تعلیمی ادارے ملبے تلے دب گئے
کھڑی فصلیں، گندم اور مکئی کی کھیتیاں پانی میں بہہ گئیں
ہزاروں مویشی ہلاک ہوگئے
عینی شاہدین کی روداد
بونیر کے مقامی شہری حبیب اللہ نے بتایا:
“دریا ایسا بپھرا کہ پورا گاؤں تنکوں کی طرح بہہ گیا۔ بچے، خواتین اور بزرگ چیخ رہے تھے لیکن پانی کی رفتار اتنی تیز تھی کہ کوئی کچھ نہ کر سکا۔”
مینگورہ کے ایک استاد نے کہا:
“ہمارا اسکول دریا کے کنارے تھا۔ صبح بچوں کو پڑھانے پہنچے تو عمارت ہی موجود نہ تھی، سب کچھ پانی میں بہہ چکا تھا۔”
این ڈی ایم اے بارشوں اور سیلاب کی وارننگ: پاکستان میں شدید بارشیں، خطرناک صورتحال اور 22 اگست تک ہنگامی الرٹ
حکومتی اقدامات اور امدادی سرگرمیاں
وزیراعظم شہباز شریف نے ہنگامی اجلاس بلا کر این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت دی کہ فوری طور پر ریلیف کیمپ قائم کیے جائیں۔ فوج اور ریسکیو ادارے متاثرہ علاقوں میں پہنچ چکے ہیں، مگر راستوں کی بندش کے باعث مشکلات درپیش ہیں۔
این ڈی ایم اے نے پہاڑی علاقوں میں سیاحتی سرگرمیوں پر پابندی کی سفارش کی ہے اور دفعہ 144 کے نفاذ پر غور ہورہا ہے۔ عوام کو سختی سے ہدایت دی گئی ہے کہ وہ متاثرہ علاقوں کا سفر نہ کریں۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے بونیر اور دیگر متاثرہ اضلاع میں ہنگامی حالت نافذ کردی ہے اور متاثرین کے لیے شیلٹر ہومز قائم کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

ماہرین کی آراء
ماہرین موسمیات کے مطابق حالیہ بارشیں “مون سون سپیل” کی غیر معمولی شدت کا نتیجہ ہیں، جن میں کلاؤڈ برسٹ اور تیز بارشوں نے پہاڑی علاقوں میں تباہی کو بڑھا دیا۔ ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بے ہنگم تعمیرات اور درختوں کی کٹائی نے بھی لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات میں اضافہ کیا ہے۔
خیبر پختونخوا سیلابی صورتحال میں متاثرین کی مشکلات
متاثرین کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں، خوراک، ادویات اور پینے کے پانی کی شدید قلت ہے۔ خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ بونیر اور سوات کے کئی گاؤں میں موبائل نیٹ ورک بند ہے جس سے امدادی کارروائیاں مزید مشکل ہوگئی ہیں۔
خیبر پختونخوا اور شمالی علاقوں میں حالیہ بارشیں اور سیلاب پاکستان کی تاریخ کی ایک اور بڑی قدرتی آفت کے طور پر یاد رکھی جائیں گی۔ سینکڑوں خاندان اجڑ گئے، ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے اور پوری پوری بستیاں ملیا میٹ ہو گئیں۔ یہ المناک سانحہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی بے احتیاطی مستقبل میں مزید خطرناک نتائج لا سکتی ہے، جس کے تدارک کے لیے فوری اور سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔
READ MORE FAQs”
خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ تباہی کہاں ہوئی؟
ضلع بونیر میں پورے گاؤں مٹ گئے اور ایک ہی خاندان کے درجنوں افراد جاں بحق ہوئے۔
سیلاب کے باعث کتنے افراد جاں بحق ہوئے؟
اب تک 340 سے زائد افراد جاں بحق جبکہ 134 سے زیادہ لاپتہ ہیں۔
حکومت نے کیا اقدامات کیے ہیں؟
وزیراعظم اور صوبائی حکومت نے ہنگامی حالت نافذ کر کے فوج، این ڈی ایم اے اور ریسکیو اداروں کو ریلیف سرگرمیوں کی ہدایت دی ہے۔
متاثرین کو سب سے زیادہ کس مشکل کا سامنا ہے؟
خوراک، ادویات، پینے کے پانی اور رہائش کی شدید کمی ہے جبکہ راستوں کی بندش نے امدادی کاموں کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔
Comments 2