نوجوانوں پر سوشل میڈیا کے منفی اثرات — ایک بڑھتا ہوا عالمی مسئلہ
دنیا تیزی سے ڈیجیٹل ہو رہی ہے، اور نوجوان نسل اس ڈیجیٹل انقلاب کے مرکز میں ہے۔ موبائل فون، انٹرنیٹ، اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے نوجوانوں کی روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ مگر جہاں یہ ذرائع معلومات اور رابطے کا ذریعہ فراہم کرتے ہیں، وہیں نوجوانوں پر سوشل میڈیا کے منفی اثرات بھی تیزی سے ظاہر ہو رہے ہیں۔
73 فیصد نوجوان متاثر — چونکا دینے والا سروے
امریکا میں کیے گئے ایک حالیہ سروے کے مطابق، تقریباً 73 فیصد نوجوان انٹرنیٹ پر لڑائی، طاقت، اور دولت کمانے جیسے تصورات سے متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا صرف تفریح یا معلومات کے لیے نہیں بلکہ ایک نفسیاتی دباؤ کا ذریعہ بھی بن رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس طرح کے مواد سے نوجوانوں پر سوشل میڈیا کے منفی اثرات گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔
ذہنی صحت پر منفی اثرات
تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا پر نظر آنے والی پرتعیش زندگی، طاقت اور ظاہری خوشی کے مناظر نوجوانوں میں احساسِ کمتری اور خود اعتمادی کی کمی پیدا کر رہے ہیں۔
سروے میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ ایسے مواد کو دیکھنے والے زیادہ تر لڑکے اور لڑکیاں تنہائی، اضطراب، اور اداسی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہی وہ پہلو ہیں جو بتاتے ہیں کہ نوجوانوں پر سوشل میڈیا کے منفی اثرات صرف وقتی نہیں بلکہ طویل مدتی نفسیاتی تبدیلیوں کا باعث بن سکتے ہیں۔
خودکار الگورتھمز اور خطرناک مواد کی رسائی
68 فیصد نوجوانوں نے بتایا کہ وہ خود اس طرح کے مواد کی تلاش نہیں کرتے، بلکہ یہ خطرناک مواد خودکار طور پر ان کی فیڈ پر آتا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے الگورتھمز صارف کی دلچسپی کے مطابق مواد دکھاتے ہیں، مگر بعض اوقات یہ مواد نفرت، تشدد، اور زہریلی مردانگی جیسے تصورات کو فروغ دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں پر سوشل میڈیا کے منفی اثرات تیزی سے بڑھ رہے ہیں، کیونکہ یہ پلیٹ فارمز ایسے مواد کو وائرل کرتے ہیں جو زیادہ کلکس اور ویوز حاصل کرتا ہے، چاہے وہ ذہنی طور پر نقصان دہ کیوں نہ ہو۔
سوشل میڈیا اور تشدد کا رجحان
تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ تشدد، طاقت اور جارحیت کو فروغ دینے والا مواد نہ صرف خواتین کے خلاف منفی رویوں کو عام کرتا ہے بلکہ بعض نوجوانوں میں تشدد پر مبنی رویے کو بھی جنم دیتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر موجود “ہیرو نما تشدد آمیز کردار” نوجوانوں کے لیے رول ماڈل بن جاتے ہیں، اور یوں نوجوانوں پر سوشل میڈیا کے منفی اثرات ان کے اخلاقی اور سماجی رویوں میں بھی جھلکنے لگتے ہیں۔
والدین اور اساتذہ کا کردار
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ سوشل میڈیا کے اثرات پر کھل کر بات کریں۔ نوجوانوں کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ انٹرنیٹ پر نظر آنے والی زندگی ہمیشہ حقیقت نہیں ہوتی۔
اساتذہ کو بھی چاہیے کہ وہ اسکولوں میں ڈیجیٹل لٹریسی پروگرام متعارف کروائیں تاکہ طلبہ کو پتا ہو کہ کس طرح آن لائن مواد کو سمجھنا اور اس کے اثرات سے بچنا ہے۔
یہی وہ اقدامات ہیں جن سے نوجوانوں پر سوشل میڈیا کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
مثبت آن لائن سرگرمیوں کی ضرورت
تحقیقی ماہرین تجویز دیتے ہیں کہ نوجوانوں کو آن لائن کے بجائے آف لائن سرگرمیوں جیسے کھیل، کتاب خوانی، یا رضاکارانہ کاموں کی طرف راغب کیا جائے۔
ایسی سرگرمیاں نہ صرف ان کے ذہن کو تروتازہ رکھتی ہیں بلکہ خود اعتمادی میں اضافہ بھی کرتی ہیں۔ اس طرح نوجوانوں پر سوشل میڈیا کے منفی اثرات کو متوازن کیا جا سکتا ہے۔
حکومت اور سوشل میڈیا کمپنیوں کی ذمہ داری
ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومتوں کو ایسے ریگولیٹری قوانین بنانے چاہییں جو بچوں اور نوجوانوں کو نقصان دہ مواد سے محفوظ رکھیں۔
اسی طرح، سوشل میڈیا کمپنیوں کو بھی اپنے فلٹرنگ سسٹمز کو مزید مضبوط بنانا ہوگا تاکہ تشدد اور منفی رویوں کو فروغ دینے والا مواد نوجوانوں تک نہ پہنچ سکے۔
یہ اقدامات نہ صرف معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دیں گے بلکہ نوجوانوں پر سوشل میڈیا کے منفی اثرات میں بھی کمی لائیں گے۔
ویپ کا زہر نوجوانوں میں ذہنی و جسمانی بیماریوں کے خطرناک اضافے کا انکشاف
سوشل میڈیا ایک طاقتور ذریعہ ہے، لیکن اگر اسے غیر ذمہ داری سے استعمال کیا جائے تو یہ نوجوانوں کے ذہن، رویے، اور مستقبل پر خطرناک اثر ڈال سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ والدین، اساتذہ، حکومت، اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز — سب کو مل کر ایک ایسا ماحول بنانا ہوگا جہاں نوجوان محفوظ رہیں۔