پاکستان میں کرپٹو کرنسی پر اسٹیٹ بینک کا اہم بیان
پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا قانونی درجہ – تازہ بحث
گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے حوالے سے بحث جاری ہے۔ ایک طرف نوجوان طبقہ اس ڈیجیٹل کرنسی کو مستقبل کی سرمایہ کاری سمجھتا ہے، دوسری جانب حکام اس کے خطرات اور غیر قانونی استعمال کو دیکھ کر محتاط رویہ اختیار کرتے ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے حالیہ اجلاس میں "ورچوئل ایسیٹ بل 2025” پر غور کیا گیا، جس دوران ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ پاکستان میں کرپٹو کرنسی (Cryptocurrency in Pakistan) غیر قانونی نہیں بلکہ "گرے” زون میں ہے۔ اس بیان نے نہ صرف کمیٹی ارکان بلکہ کرپٹو انویسٹرز کے درمیان بھی نئی بحث کو جنم دیا۔
اسٹیٹ بینک کا مؤقف
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے واضح کیا کہ اس وقت پاکستان میں کرپٹو کرنسی پر کوئی باضابطہ قانون موجود نہیں، اس لیے اسے "غیر قانونی” کہنا درست نہیں۔ البتہ، چونکہ یہ باضابطہ طور پر ریگولیٹڈ نہیں، اس لیے اسے "گرے” زون میں تصور کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے نوجوان کرپٹو کرنسی میں مہارت رکھتے ہیں اور دنیا بھر میں اس شعبے میں کام کر رہے ہیں۔ لیکن چونکہ قانونی فریم ورک موجود نہیں، اس لیے یہ سرمایہ کار ایک غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔
سینیٹ کمیٹی میں سوالات
چیئرمین کمیٹی سلیم مانڈوی والا نے سوال اٹھایا کہ اگر ہنڈی اور حوالہ غیر قانونی ہیں تو پھر پاکستان میں کرپٹو کرنسی کو "گرے” کیسے قرار دیا جا رہا ہے؟ ان کا مؤقف تھا کہ جب ٹرانزیکشنز روایتی نظام سے باہر ہو رہی ہیں تو انہیں ریگولیٹ کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں۔
کرپٹو کرنسی اور جرائم میں استعمال
سینیٹر محسن عزیز نے اجلاس میں ایک سنگین نکتہ اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ اطلاعات ملی ہیں کہ پاکستان میں کرپٹو کرنسی اغوا برائے تاوان کے کیسز میں استعمال ہو رہی ہے۔ پہلے تاوان نقدی کی صورت میں مانگا جاتا تھا، مگر اب اغوا کار کرپٹو کرنسی کے ذریعے ادائیگی کا تقاضہ کرتے ہیں تاکہ ان کا سراغ لگانا مشکل ہو۔
یہ پہلو ظاہر کرتا ہے کہ اگر فوری طور پر کرپٹو کرنسی کے لیے قانونی دائرہ کار وضع نہ کیا گیا تو مجرم اس کا ناجائز فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
ٹیکس نظام اور کرپٹو کرنسی
اجلاس میں ٹیکس کے نظام پر بھی بحث ہوئی۔ سینیٹر دلاور خان نے کہا کہ ملک میں سپر ٹیکس، سیلز ٹیکس اور دیگر کئی ٹیکسز لگے ہوئے ہیں۔ اگر سب پر یکساں پانچ فیصد ٹیکس لگا دیا جائے تو ٹیکس ریونیو میں 40 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس بحث کو کرپٹو کرنسی کے تناظر میں دیکھیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پاکستان میں کرپٹو کرنسی کو ریگولیٹ کر کے ٹیکس نیٹ میں شامل کر لیا جائے تو کتنا بڑا ریونیو پیدا کیا جا سکتا ہے۔
کرپٹو کرنسی اور نوجوان طبقہ
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں کرپٹو کرنسی خاص طور پر نوجوان نسل میں تیزی سے مقبول ہو رہی ہے۔ فری لانسرز، ٹیکنالوجی ایکسپرٹس اور سرمایہ کار بڑی تعداد میں کرپٹو مارکیٹ میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ اگر اس مارکیٹ کو قانونی دائرہ کار میں لایا جائے تو نہ صرف سرمایہ کار محفوظ ہوں گے بلکہ حکومت کو بھی خاطر خواہ ریونیو مل سکتا ہے۔
عالمی تناظر میں پاکستان
دنیا کے کئی ممالک نے کرپٹو کرنسی کو باضابطہ ریگولیٹ کیا ہے۔ امریکہ، جاپان اور یورپی یونین نے اس حوالے سے قوانین وضع کیے ہیں، جبکہ بھارت نے بھی کرپٹو پر ٹیکس لگا کر اسے "گرے” زون سے نکالنے کی کوشش کی ہے۔ ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ کب تک پاکستان میں کرپٹو کرنسی قانونی دھندلکوں میں چھپی رہے گی؟
خطرات اور خدشات
اگرچہ کرپٹو کرنسی سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ خطرات بھی جڑے ہیں۔ منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری، اور جرائم پیشہ سرگرمیوں میں اس کے استعمال کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیٹ بینک اور دیگر ادارے محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔
آگے کا راستہ
ماہرین کا کہنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان میں کرپٹو کرنسی کو باضابطہ قانون کے تحت لایا جائے۔ اگر ریگولیٹری فریم ورک تیار ہو جائے تو نہ صرف سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھے گا بلکہ ملک کو مالی فوائد بھی حاصل ہوں گے۔
مختصراً، پاکستان میں کرپٹو کرنسی اس وقت "گرے” زون میں ہے۔ اسے غیر قانونی کہنا درست نہیں لیکن باضابطہ طور پر ریگولیٹڈ نہ ہونے کی وجہ سے سرمایہ کار اور حکومت دونوں نقصان اٹھا رہے ہیں۔ اب یہ پارلیمنٹ اور اسٹیٹ بینک پر منحصر ہے کہ وہ کب اس کے لیے واضح قانون سازی کرتے ہیں تاکہ پاکستان عالمی مالیاتی نظام میں پیچھے نہ رہ جائے۔
پاکستان کی کرپٹو حکمت عملی اور بلال بن ثاقب کی پیشگوئیوں کی کامیابی

Comments 1