آئی ایم ایف: پاکستان منی لانڈرنگ اسکیموں کی مؤثر روک تھام میں ناکام، گورننس اور کرپشن رپورٹ میں سنگین خامیاں بے نقاب
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اپنی تازہ ترین گورننس اور کرپشن ڈائگناسٹک اسیسمنٹ رپورٹ میں پاکستان کی مالیاتی شفافیت اور انسداد منی لانڈرنگ اقدامات پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، پاکستان اب تک منی لانڈرنگ اسکیموں کی مؤثر روک تھام میں ناکام رہا ہے اور اس ناکامی کے نتیجے میں مالیاتی نظام بین الاقوامی معیار سے پیچھے رہ گیا ہے۔
رپورٹ کی تیاری اور اجرا کا پس منظر
ذرائع کے مطابق، آئی ایم ایف نے یہ تفصیلی رپورٹ تیار کر کے اس کا ابتدائی مسودہ حکومتِ پاکستان کو ارسال کر دیا ہے تاکہ حکومتی ادارے رپورٹ میں پیش کردہ مشاہدات اور سفارشات کا جائزہ لے سکیں۔ یہ رپورٹ باضابطہ طور پر رواں ماہ جاری ہونے کا امکان ہے، اور اسے پاکستان کے مالیاتی نظام میں شفافیت، احتساب اور گورننس کے حوالے سے ایک اہم سنگِ میل قرار دیا جا رہا ہے۔
بینیفیشل اونرشپ نظام میں بڑے نقائص
آئی ایم ایف کی رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پاکستان کا بینیفیشل اونرشپ نظام مؤثر نفاذ سے محروم ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اداروں کے درمیان بینیفیشل اونرشپ ڈیٹا کے تبادلے کا کوئی مؤثر ثبوت موجود نہیں۔
اس ڈیٹا کی غیر موجودگی جعلی کمپنیوں کو بآسانی سرکاری ٹھیکے حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
اس حوالے سے ایس ای سی پی، اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر کے درمیان روابط کو غیر تسلی بخش قرار دیا گیا ہے۔
بینکوں اور تحقیقاتی اداروں کے درمیان رابطوں کا فقدان
آئی ایم ایف کے مطابق:
کمرشل بینکوں اور تفتیشی اداروں کے درمیان تعاون اور رابطے کی کمی مالیاتی جرائم کے انسداد میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
قانون سازی میں پائے جانے والے کمزور پہلو اور بین الادارہ رسائی کی محدودیت انسداد منی لانڈرنگ کے نظام کو غیر مؤثر بناتی ہے۔
منی لانڈرنگ اسکیموں کی روک تھام میں ناکامی
رپورٹ میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ پاکستان میں منی لانڈرنگ کے انسداد کے لیے کیے گئے اقدامات مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام رہے ہیں۔
مؤثر ڈیٹا شیئرنگ نہ ہونے کی وجہ سے مالیاتی تحقیقات سست روی کا شکار رہتی ہیں۔
بینکنگ چینلز کے غلط استعمال، غیر قانونی رقوم کی منتقلی، اور جعلی کمپنیوں کی سرگرمیاں اس کمی کا براہ راست نتیجہ ہیں۔

آئی ایم ایف کی سفارشات
آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں پاکستان کے لیے متعدد سفارشات پیش کی ہیں، جن میں شامل ہیں:
ادارہ جاتی ورکنگ گروپ کا قیام جو بینکوں، مالیاتی اداروں اور تفتیشی ایجنسیوں کے درمیان ڈیٹا شیئرنگ کو یقینی بنائے۔
قانونی فریم ورک میں اصلاحات تاکہ بین الادارہ رسائی اور معلومات کے تبادلے کو قانونی تحفظ حاصل ہو۔
بینیفیشل اونرشپ ڈیٹا بیس کو جدید خطوط پر استوار کرنا اور اس کی مسلسل اپڈیٹ کو یقینی بنانا۔کمرشل بینکوں اور ریگولیٹری اداروں کے مابین باقاعدہ کوآرڈینیشن میکانزم کا نفاذ۔
پاکستان کے لیے ممکنہ اثرات
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آئی ایم ایف کی اس رپورٹ میں درج خامیوں کو جلد دور نہ کیا گیا تو:
پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) جیسے بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر مزید دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
غیر ملکی سرمایہ کاری پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں کیونکہ سرمایہ کاروں کے لیے شفافیت اور مالیاتی تحفظ بنیادی ترجیح ہے۔
بیرونی قرضوں اور مالی امداد کے حصول میں رکاوٹیں بڑھ سکتی ہیں کیونکہ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی ادارے گورننس معیار کو بہتر بنانے پر زور دیتے ہیں۔
حکومتی ردعمل
ابتدائی اطلاعات کے مطابق، حکومتِ پاکستان رپورٹ کے مشاہدات اور سفارشات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ایک جامع حکمتِ عملی تیار کرے گی۔ وزارتِ خزانہ کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ قریبی تعاون میں کام کرنے اور مالیاتی شفافیت کے عالمی معیار کو اپنانے کا عزم رکھتی ہے۔
آئی ایم ایف کی یہ رپورٹ ایک بار پھر اس امر کو اجاگر کرتی ہے کہ پاکستان کو نہ صرف اپنے قانونی اور ریگولیٹری ڈھانچے کو مضبوط بنانا ہوگا بلکہ اداروں کے درمیان اعتماد اور تعاون کو بھی فروغ دینا ہوگا۔
منی لانڈرنگ جیسے پیچیدہ اور بین الاقوامی جرائم کے انسداد کے لیے صرف قانون سازی کافی نہیں، بلکہ اس پر مؤثر عملدرآمد اور ادارہ جاتی ہم آہنگی بھی ناگزیر ہے۔
READ MORE FAQs.
آئی ایم ایف کی یہ رپورٹ کس بارے میں ہے؟
یہ رپورٹ "گورننس اور کرپشن ڈائگناسٹک اسیسمنٹ” کے تحت تیار کی گئی ہے، جس میں پاکستان کے مالیاتی شفافیت کے نظام، انسداد منی لانڈرنگ اقدامات، اور گورننس کے معیار کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
آئی ایم ایف نے پاکستان پر کیا الزامات لگائے ہیں؟
آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستان مؤثر طور پر منی لانڈرنگ اسکیموں کی روک تھام میں ناکام رہا ہے، اور اس کے مالیاتی اداروں کے درمیان رابطے اور ڈیٹا شیئرنگ کے نظام میں سنگین خامیاں موجود ہیں۔
پاکستان میں منی لانڈرنگ روکنے کے اقدامات ناکام کیوں رہے؟
مؤثر ڈیٹا شیئرنگ کا فقدان
قوانین پر ناقص عملدرآمد
غیر قانونی رقوم کی منتقلی اور جعلی کمپنیوں کی سرگرمیاں
یہ سب عوامل انسداد منی لانڈرنگ اقدامات کو غیر مؤثر بنا دیتے ہیں۔