لاہور میں کشیدہ حالات: ٹی ایل پی احتجاج شدت اختیار کر گیا،2 کارکن جاں بحق اور پچاس سے زائد زخمی، 100 سے زائد کارکن گرفتار، ترجمان ٹی ایل پی ۔
لاہور (رئیس الاخبار) — ملک کے مختلف شہروں میں حالات ایک بار پھر کشیدہ ہو گئے ہیں، تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے احتجاج نے شدت اختیار کر لی ہے۔ لاہور، اسلام آباد اور راولپنڈی میں سیکیورٹی الرٹ جاری ہے جبکہ وزارتِ داخلہ نے جڑواں شہروں میں موبائل انٹرنیٹ سروس تاحکمِ ثانی بند کرنے کا حکم دیا ہے۔
جھڑپوں کا آغاز اور پس منظر
بدھ کی رات لاہور کے مختلف علاقوں، خصوصاً ملتان روڈ اور چوبرجی کے اطراف، پولیس اور ٹی ایل پی کے کارکنوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔ ٹی ایل پی احتجاج کے دوران تصادم کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوئے جن میں ایک درجن کے قریب پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق یہ کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب تحریک لبیک نے اعلان کیا کہ وہ فلسطینی عوام سے اظہارِ یکجہتی کے لیے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے باہر احتجاج کرے گی۔ حکام نے مارچ کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے، تحریک کے مرکز مسجد رحمت العالمین کے اطراف کنٹینرز لگا کر راستے بند کیے گئے اور شہر کے داخلی و خارجی دروازے سیل کر دیے گئے۔

انٹرنیٹ سروس کی معطلی
جمعرات کی صبح وزارتِ داخلہ کی ہدایت پر پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (PTA) نے اسلام آباد اور راولپنڈی میں موبائل انٹرنیٹ سروس معطل کر دی۔
حکام کے مطابق یہ اقدام امن و امان برقرار رکھنے، اشتعال انگیز مواد کی روک تھام اور افواہوں کے پھیلاؤ کو محدود کرنے کے لیے اٹھایا گیا۔
انٹرنیٹ کی بندش کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ آن لائن کاروبار، ڈیجیٹل ادائیگیوں، سوشل میڈیا رابطوں اور میڈیا رپورٹس کی ترسیل میں خلل پڑ گیا ہے۔
ٹی ایل پی ملین مارچ کے پیشِ نظر موبائل فون انٹرنیٹ سروس معطل، سیکیورٹی سخت
لاہور کی صورتحال
جمعرات کے روز لاہور میں پولیس نے ملتان روڈ اور چوبرجی کے اطراف اضافی نفری تعینات کر دی۔ یتیم خانہ چوک سے سبزہ زار تک کا علاقہ مکمل طور پر بند ہے۔ شہریوں کے لیے آمد و رفت تقریباً ناممکن ہو گئی ہے جبکہ دکانیں اور پٹرول پمپ بند ہونے سے معمولاتِ زندگی مفلوج ہیں۔
تحریک لبیک کے کارکنوں نے سڑکوں پر عارضی کیمپ قائم کر کے دھرنا دے رکھا ہے۔ ٹی ایل پی احتجاج کے دوران مشتعل کارکنوں کے پتھراؤ کے جواب میں پولیس نے آنسو گیس، واٹر کینن اور لاٹھی چارج کا استعمال کیا۔ کئی مقامات پر دکانوں اور گاڑیوں کو نقصان پہنچنے کی اطلاعات ہیں۔
گرفتاریاں اور مقدمات
پولیس ذرائع کے مطابق اب تک اسلام آباد اور لاہور سے 100 سے زائد کارکن گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ لاہور کے نواں کوٹ تھانے میں ٹی ایل پی احتجاج کے درجنوں کارکنوں کے خلاف انسدادِ دہشت گردی ایکٹ سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق تنظیم کے سربراہ سعد حسین رضوی اور دیگر رہنماؤں کے نام بھی مقدمے میں شامل کیے جا رہے ہیں
ہلاکتیں اور زخمی
تحریک لبیک کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ ٹی ایل پی احتجاج کے دوران جھڑپوں میں ان کے دو کارکن جاں بحق اور پچاس سے زائد زخمی ہوئے، تاہم پولیس کا مؤقف ہے کہ صرف ایک ہلاکت ہوئی ہے جس کی لاش تنظیم کے حوالے کر دی گئی۔ پولیس کے درجنوں اہلکار بھی زخمی ہیں جنہیں اسپتالوں میں طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔
“حتمی کال” اور نئی تحریک کی تیاری
بدھ کی شب کے تصادم کے بعد تحریک لبیک کی قیادت نے اپنے کارکنوں سے اپیل کی کہ وہ جمعہ کو لاہور پہنچیں تاکہ “حتمی کال” دی جا سکے۔ اس اعلان کے بعد صوبے بھر میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی۔
پولیس کو خدشہ ہے کہ اگر ٹی ایل پی احتجاج میں مظاہرین کی تعداد بڑھی تو حالات مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔
راولپنڈی اور اسلام آباد کی پابندیاں
ضلعی انتظامیہ راولپنڈی نے 11 اکتوبر تک دفعہ 144 نافذ کر دی ہے، جس کے تحت احتجاج، دھرنوں اور ریلیوں پر پابندی عائد ہے۔ لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر بھی پابندی ہوگی۔
انتظامیہ نے واضح کیا ہے کہ حساس تنصیبات کے قریب کسی بھی پرتشدد کارروائی کے خطرے کے پیشِ نظر یہ اقدام کیا گیا ہے۔
اسلام آباد میں پولیس اور انتظامیہ نے ٹی ایل پی احتجاج کے پیشِ نظر تمام داخلی راستوں پر کنٹینرز رکھ دیے ہیں۔ ریڈ زون کو مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے جبکہ صرف مارگلہ روڈ مخصوص اہلکاروں کے لیے کھولا جائے گا۔
ٹی ایل پی کا مؤقف
تحریک لبیک کے رہنما علامہ فاروق الحسن نے لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ان کی جماعت اب بھی مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے کہا، “ہم نے 15 روز قبل امریکی سفارتخانے تک مارچ کا اعلان کیا تھا۔ ہمارا مقصد اسرائیل کے خلاف پرامن احتجاج ہے، مگر ہمیں زبردستی روکا جا رہا ہے۔”
ترجمان صدام حسین کے مطابق “ہم نہتے اور پُرامن کارکن ہیں، مگر پولیس نے رات گئے ہمارے مرکز پر دھاوا بول دیا۔ فائرنگ سے 80 کے قریب کارکن زخمی اور دو جاں بحق ہوئے۔ ہمارے دو ہزار سے زائد کارکن حراست میں ہیں۔
حکومتی مؤقف
وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا ہے کہ “انتہاپسندانہ منفی سیاست کی پاکستان میں اجازت نہیں دی جا سکتی۔”
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے گرفتار افراد سے ڈنڈے، شیشے کی گولیاں اور آنسو گیس کے شیل برآمد کیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ “حکومت پُرامن احتجاج کی اجازت دیتی ہے لیکن قواعد و ضوابط کے اندر رہ کر۔ ٹی ایل پی نے اجازت نہیں لی اور ان کی اشتعال انگیز تقاریر سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔”
عوامی ردعمل
شہریوں نے بتایا کہ انٹرنیٹ بندش، ٹریفک جام اور کاروباری تعطل نے زندگی مفلوج کر دی ہے۔ تاجر تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت مذاکرات کے ذریعے معاملہ حل کرے تاکہ عام آدمی مزید متاثر نہ ہو۔
سوشل میڈیا پر شہریوں نے بھیٹی ایل پی احتجاج اور ریاستی سختی دونوں پر تنقید کی ہے۔
ماہرین کی رائے
سیکیورٹی ماہرین کے مطابق انٹرنیٹ کی بندش وقتی حل ہے مگر طویل المدتی طور پر معیشت اور شہری آزادیوں پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔
ڈیجیٹل معیشت کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سروس کی معطلی سے آن لائن کاروبار، ای کامرس، میڈیا اور فری لانس مارکیٹ کو کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
نتیجہ
موجودہ حالات میں حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان مذاکرات ناگزیر دکھائی دیتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق طاقت کا استعمال وقتی سکون لا سکتا ہے مگر دیرپا امن کے لیے مکالمہ اور مفاہمت ہی واحد راستہ ہے۔
عوام اس وقت خوف، بے یقینی اور اضطراب کی کیفیت میں ہیں، جبکہ ریاست اور مذہبی تنظیم کے درمیان تصادم کا بوجھ پورا معاشرہ برداشت کر رہا ہے۔
لبیک کے مارچ کا خوف،
جہلم پل کے تازہ ترین مناظر ‼️#TLP #Pakistan #Islamabad pic.twitter.com/q4BfCZVwVJ
— Moiz Bawany (@MoizBawanyy) October 8, 2025