سرحدی کشیدگی کے باعث طورخم بارڈر پر ہر قسم کی نقل و حرکت روک دی گئی، مال بردار گاڑیاں لنڈی کوتل منتقل
طورخم بارڈر کی بندش: پاک افغان تعلقات میں تناؤ کی تازہ لہر
پاک افغان سرحد پر واقع طورخم بارڈر ایک بار پھر کشیدگی کا شکار ہو گیا ہے، جہاں حالیہ دنوں میں دونوں ممالک کی سکیورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کے تبادلے اور بڑھتی ہوئی کشیدہ صورتحال کے باعث اس اہم تجارتی اور سفری گزرگاہ کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ بارڈر کی بندش سے نہ صرف دوطرفہ تجارتی سرگرمیاں معطل ہو گئی ہیں بلکہ روزانہ کی بنیاد پر پیدل سفر کرنے والے ہزاروں افراد کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
ذرائع کے مطابق، طورخم بارڈر پر اس وقت مکمل سناٹا چھایا ہوا ہے۔ پیدل سفر کرنے والے افراد، جن میں مریض، بزرگ، خواتین اور طلبہ شامل ہیں، شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ مال بردار گاڑیوں کو طورخم کے قریب واقع لنڈی کوتل منتقل کر دیا گیا ہے جہاں وہ تاحکم ثانی کھڑی ہیں۔ سرحد کی دونوں جانب انتظار میں کھڑے ٹرک ڈرائیورز، تاجر اور مسافر سخت ذہنی کوفت میں مبتلا ہیں۔
تنازع کا پس منظر
یہ کشیدگی کوئی نئی بات نہیں بلکہ ماضی میں بھی پاک افغان سرحد پر اسی نوعیت کے تنازعات ابھرتے رہے ہیں۔ خاص طور پر طورخم بارڈر پر وقتاً فوقتاً فائرنگ، بارڈر کراسنگ کی بندش، اور تعمیراتی سرگرمیوں پر اختلافات ان تنازعات کا باعث بنتے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ رواں سال فروری میں بھی دونوں ملکوں کی سکیورٹی فورسز کے درمیان سرحدی حدود پر تعمیراتی کاموں کے معاملے پر اختلافات پیدا ہوئے تھے، جس کے نتیجے میں بارڈر کو کئی روز تک بند کر دیا گیا تھا۔
مارچ 2025 میں صورتحال اس وقت مزید خراب ہو گئی تھی جب دونوں ممالک کی سرحدی فورسز کے درمیان فائرنگ کے شدید تبادلے ہوئے۔ اس جھڑپ میں 6 فوجی اہلکاروں سمیت 8 افراد زخمی ہوئے تھے، جبکہ توپ خانے کی گولہ باری کے باعث کئی مکانات، ایک مسجد اور کچھ تجارتی دفاتر کو نقصان پہنچا تھا۔ سرحد پار فائرنگ کا یہ سلسلہ لگاتار تین دن تک جاری رہا، جس نے مقامی آبادی میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کر دی تھی۔
موجودہ صورتحال
حالیہ فائرنگ کا واقعہ اور اس کے نتیجے میں بارڈر کی بندش، دوطرفہ تعلقات میں ایک اور تلخ باب کا اضافہ ہے۔ موجودہ بندش کے باعث تجارتی سرگرمیاں مکمل طور پر معطل ہو چکی ہیں۔ افغانستان جانے اور وہاں سے پاکستان آنے والی اشیاء — جن میں بنیادی ضروریات کی اشیاء، پھل، سبزیاں، اور دیگر تجارتی سامان شامل ہیں — کی ترسیل رُک گئی ہے، جس سے نہ صرف تاجروں کو بھاری مالی نقصان کا سامنا ہے بلکہ عام عوام کی زندگی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
پیدل سفر کرنے والوں میں بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے جو علاج کی غرض سے پاکستان آتے ہیں یا اپنے خاندانوں سے ملنے کے لیے سرحد پار کرتے ہیں۔ بارڈر کی بندش نے ان سب کی زندگیوں میں ایک عارضی جمود پیدا کر دیا ہے۔ طورخم کے قریبی علاقوں میں سیکورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے اور لوگوں کو غیر ضروری نقل و حرکت سے گریز کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
قبائلی عمائدین کا کردار
ماضی کی طرح اس بار بھی سرحد کے دونوں جانب موجود قبائلی عمائدین تنازع کے حل کے لیے متحرک ہو چکے ہیں۔ ان عمائدین کا کردار ہمیشہ سے خطے میں امن قائم کرنے اور فریقین کے درمیان ثالثی کا رہا ہے۔ فروری اور مارچ میں بھی انہی عمائدین کی کوششوں سے ایک عارضی مفاہمت سامنے آئی تھی جس کے بعد بارڈر کو جزوی طور پر کھولا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق، مقامی رہنماؤں نے ایک بار پھر فریقین کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع کر دیا ہے تاکہ مسئلے کا پُرامن حل نکالا جا سکے۔ تاہم، اس بار معاملہ قدرے پیچیدہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ دونوں ممالک کی جانب سے سخت موقف اپنایا جا رہا ہے۔
خطے پر اثرات
طورخم بارڈر صرف ایک بارڈر کراسنگ نہیں بلکہ ایک اہم معاشی شاہ رگ ہے۔ روزانہ ہزاروں افراد کی آمد و رفت اور سینکڑوں مال بردار گاڑیوں کی نقل و حرکت اس راہداری کے ذریعے ہوتی ہے۔ اس کی بندش کا اثر نہ صرف سرحدی علاقوں بلکہ ملک گیر سطح پر بھی محسوس کیا جاتا ہے۔ افغانستان کے اندرونی حالات کے پیش نظر، پاکستان ہمیشہ ایک سہولت کار کے طور پر کردار ادا کرتا رہا ہے — چاہے وہ تجارتی راستے فراہم کرنا ہو، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد دینا ہو یا پناہ گزینوں کو سہارا دینا۔
تاہم، مسلسل بڑھتی کشیدگی اور افغان طالبان حکومت کے رویے کے باعث پاکستان کے لیے ایسے اقدامات جاری رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کے مختلف حلقے بارہا یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ افغانستان کو پاکستان کی دہائیوں پر محیط خدمات کو تسلیم کرنا چاہیے اور ایک دوستانہ و ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
مستقبل کی حکمت عملی
ماہرین کا کہنا ہے کہ سرحدی تنازعات کا مستقل حل صرف مضبوط سفارتی حکمت عملی اور دوطرفہ اعتماد سازی سے ہی ممکن ہے۔ اگر دونوں ممالک اپنی سرحدوں کی مشترکہ نگرانی اور باہمی مشاورت سے مسائل کا حل نکالیں تو نہ صرف کشیدگی کم ہو سکتی ہے بلکہ خطے میں معاشی ترقی کے دروازے بھی کھل سکتے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان دونوں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ ان کے عوام ایک دوسرے سے جغرافیائی، ثقافتی اور معاشی طور پر جُڑے ہوئے ہیں۔ طورخم بارڈر جیسے اہم مقام کی بندش صرف وقتی طور پر سکیورٹی خدشات کو مدنظر رکھ کر کی جا سکتی ہے، لیکن اسے مستقل پالیسی کے طور پر اپنانا کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔
طورخم بارڈر کی حالیہ بندش اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ پاک افغان تعلقات میں اعتماد کا فقدان موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک کشیدگی کو کم کرنے، تنازعات کو پُرامن طریقے سے حل کرنے اور عوامی سطح پر روابط کو مضبوط بنانے کے لیے فوری اقدامات کریں۔ ورنہ نہ صرف خطے کا امن خطرے میں پڑ سکتا ہے بلکہ دونوں ممالک کی معیشتیں بھی اس کشیدگی کا خمیازہ بھگت سکتی ہیں۔
