غزہ پر اسرائیلی حملے — دو سالہ بربریت کی المناک داستان
آج سے دو سال قبل 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل نے غزہ پر ایک ایسی جنگ مسلط کی جس نے پورے خطے کو انسانی المیے میں دھکیل دیا۔
غزہ پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں ہزاروں معصوم شہری شہید، لاکھوں زخمی، اور بے شمار خاندان ہمیشہ کے لیے اجڑ گئے۔
دو برس گزر جانے کے باوجود تباہی، بھوک، بیماری اور خوف کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔
جنگ کا آغاز — "طوفان الاقصیٰ” سے اسرائیلی جارحیت تک
یہ جنگ اُس وقت شروع ہوئی جب فلسطینی تنظیم حماس نے اسرائیلی قبضے اور مسلسل مظالم کے خلاف "طوفان الاقصیٰ” کے نام سے جوابی کارروائی کی۔
حماس کے مجاہدین نے سرحد پار کر کے اسرائیلی بستیوں میں داخل ہو کر درجنوں فوجی ٹھکانے تباہ کیے اور 251 اسرائیلیوں کو یرغمال بنایا۔
اس کارروائی کے جواب میں غزہ پر اسرائیلی حملے کا آغاز ہوا، جس میں اسرائیل نے فضائی، زمینی اور بحری راستوں سے غزہ پر بے دریغ بمباری شروع کر دی۔
بے مثال تباہی — 67 ہزار شہادتیں، 1.7 لاکھ زخمی
غزہ پر اسرائیلی حملے کے دوران گزشتہ دو برس میں 67 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
ان میں سے تقریباً 70 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔
زخمیوں کی تعداد 1 لاکھ 70 ہزار سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق غزہ کے اسپتال ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں، 80 فیصد طبی مراکز مکمل طور پر تباہ یا غیر فعال ہو گئے ہیں۔
غزہ محاصرہ — قحط، فاقہ کشی اور بے گھری
اسرائیل نے 2023 سے غزہ پر مکمل ناکہ بندی کر رکھی ہے۔
خوراک، پانی، ایندھن اور ادویات کی فراہمی مکمل طور پر بند کر دی گئی ہے۔
نتیجتاً، 20 لاکھ سے زائد افراد قحط کا شکار ہیں۔
غزہ کے مختلف علاقوں میں لوگ پتے، گھاس، حتیٰ کہ جانوروں کی کھال تک کھانے پر مجبور ہیں۔
غزہ پر اسرائیلی حملے نے پورے علاقے کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے۔
اسپتال، مساجد، کلیسا، اسکول، یونیورسٹیاں، پانی کی لائنیں اور بجلی کے پلانٹس سب ملبے میں بدل چکے ہیں۔
لاکھوں بے گھر — فلسطین کا اجتماعی المیہ
غزہ کی آبادی کا تقریباً 85 فیصد حصہ، یعنی 22 لاکھ افراد اپنے گھروں سے محروم ہو چکے ہیں۔
ہزاروں خاندان عارضی خیمہ بستیوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
سردیوں میں یہ خیمے سرد ہواؤں سے بچاؤ نہیں دے پاتے، جبکہ گرمیوں میں وہاں درجہ حرارت 40 ڈگری سے تجاوز کر جاتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق یہ صورتحال موجودہ دور کا بدترین انسانی بحران ہے۔
دنیا کی خاموشی اور دوغلی پالیسیاں
غزہ پر اسرائیلی حملے کے باوجود عالمی طاقتوں کی خاموشی افسوسناک ہے۔
امریکہ نے اسرائیل کو مسلسل اسلحہ، انٹیلی جنس اور مالی امداد فراہم کی۔
دوسری جانب یورپی ممالک نے زبانی ہمدردی ضرور دکھائی مگر عملی اقدام نہیں کیا۔
امریکی صدر کے جنگ بندی کے مطالبے کو بھی اسرائیل نے کھلے عام مسترد کر دیا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ عالمی طاقتیں صیہونی حکومت پر کوئی دباؤ ڈالنے میں ناکام ہیں۔
انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں
ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا ہے۔
ان تنظیموں کے مطابق:
شہری آبادی پر جانی بوجھ کر حملے کیے گئے۔
اسپتالوں، اسکولوں اور پناہ گزین کیمپوں کو نشانہ بنایا گیا۔
سفید فاسفورس جیسے ممنوعہ ہتھیار استعمال کیے گئے۔
یہ تمام کارروائیاں بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
ہر روز نئی تباہی — آج بھی 24 جنازے اٹھے
دو سال گزر جانے کے باوجود غزہ پر اسرائیلی حملے ختم نہیں ہوئے۔
تازہ بمباری میں مزید 24 فلسطینی شہید ہوئے ہیں، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔
غزہ شہر کے شمالی علاقوں میں کئی رہائشی عمارتیں زمین بوس کر دی گئیں۔
زندہ بچ جانے والے افراد ملبے تلے اپنے پیاروں کو تلاش کر رہے ہیں۔
عالمی ردعمل — مگر عملی اقدامات کی کمی
عالمی ادارے، خصوصاً اقوام متحدہ، انسانی حقوق کونسل، اور او آئی سی نے اسرائیلی بربریت کی مذمت کی ہے۔
تاہم عملی طور پر کوئی پابندی، عدالتی کارروائی یا عسکری دباؤ اب تک نظر نہیں آیا۔
اسلامی ممالک کے عوام سراپا احتجاج ہیں، لیکن عالمی سیاست میں طاقت کا توازن اب بھی اسرائیل کے حق میں ہے۔
فلسطینی عوام کی مزاحمت — امید کی آخری کرن
تباہی اور بربادی کے باوجود فلسطینی عوام کے حوصلے بلند ہیں۔
وہ اپنی آزادی اور سرزمین کے تحفظ کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔
غزہ پر اسرائیلی حملے نے جہاں لاکھوں زندگیاں چھین لیں، وہیں فلسطینیوں کے عزم کو مزید مضبوط کیا ہے۔
یہ جنگ دنیا کے ضمیر کے لیے بھی ایک امتحان ہے۔
دو سال، دو کروڑ آنسو، اور خاموش دنیا
دو سال گزرنے کے بعد بھی غزہ کے بچے، خواتین اور بوڑھے انصاف کے منتظر ہیں۔
یہ جنگ صرف غزہ پر نہیں، بلکہ انسانیت پر حملہ ہے۔
غزہ پر اسرائیلی حملے نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، مگر عالمی ضمیر اب بھی سویا ہوا ہے۔
غزہ میں اسرائیلی مظالم، 80 فلسطینی شہید اور ترک صدر کا سخت ردعمل
Comments 1