اسلام آباد پولیس نے ایمل ولی خان کی گرفتاری کی خبروں کی سختی سے تردید کردی
حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا اور چند ذرائع ابلاغ پر یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ سینیٹر ایمل ولی خان کو اسلام آباد سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان خبروں نے سیاسی اور عوامی حلقوں میں خاصی بے چینی پیدا کی، تاہم اسلام آباد پولیس نے بروقت ردِ عمل دیتے ہوئے ان خبروں کو "بے بنیاد، غلط اور گمراہ کن” قرار دیا۔
اسلام آباد پولیس کا مؤقف
اسلام آباد پولیس کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ سرکاری بیان میں واضح کیا گیا کہ:
"سینیٹر ایمل ولی خان کو اسلام آباد پولیس نے گرفتار نہیں کیا، نہ ہی وہ اسلام آباد کی حدود میں کسی قسم کی حراست میں ہیں۔”
ترجمان کے مطابق، اس قسم کی جھوٹی خبریں نہ صرف عوام کو گمراہ کرتی ہیں بلکہ سیکیورٹی اداروں کی ساکھ کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ پولیس نے عوام اور میڈیا سے اپیل کی کہ وہ تصدیق شدہ اور مستند ذرائع سے ہی معلومات حاصل کریں۔
ڈی آئی جی آپریشنز کی وضاحت
ڈی آئی جی اسلام آباد آپریشنز، جواد طارق نے بھی اس معاملے پر بات کرتے ہوئے واضح انداز میں کہا:
"ہماری معلومات کے مطابق، سینیٹر ایمل ولی خان کو نہ تو اسلام آباد پولیس نے گرفتار کیا ہے، اور نہ ہی ان کی گرفتاری اسلام آباد کی کسی حدود میں ہوئی ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا پر چلنے والی تمام خبریں بے بنیاد اور سنسنی خیز ہیں، جن کا مقصد شاید کسی خاص سیاسی ایجنڈے کو تقویت دینا ہے یا عوام کو الجھن میں ڈالنا۔
ایمل ولی خان کون ہیں؟
سینیٹر ایمل ولی خان پاکستان کی معروف سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سے تعلق رکھتے ہیں، اور باچا خان کے خانوادے کے نمایاں فرد ہیں۔ وہ نہ صرف اے این پی کے ایک متحرک رہنما ہیں بلکہ خیبرپختونخوا کی سیاست میں ان کا کردار خاصا نمایاں رہا ہے۔
ایمل ولی خان متعدد مواقع پر جمہوریت، آئین کی بالادستی، اور صوبائی خودمختاری کے حق میں آواز بلند کرتے آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی گرفتاری کی افواہوں نے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی۔
سوشل میڈیا پر غلط اطلاعات کا پھیلاؤ
اس تمام صورتحال میں سوشل میڈیا کا کردار ایک بار پھر تنقید کی زد میں آیا ہے۔ سینیٹر ایمل ولی کی گرفتاری سے متعلق افواہیں پہلے پہل ٹوئٹر (X) اور فیس بک پر نمودار ہوئیں، جنہیں بغیر تحقیق اور تصدیق کے کئی صارفین، یہاں تک کہ بعض نامور شخصیات اور صحافیوں نے بھی شیئر کر دیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ:
"غلط خبریں اب ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہیں۔ عوام کو نہ صرف الجھن میں ڈالتی ہیں بلکہ اداروں پر بے بنیاد تنقید کو ہوا دیتی ہیں۔”
قانونی ماہرین کی رائے
قانونی ماہرین کے مطابق اگر کسی بھی فرد کے خلاف کوئی عدالتی حکم موجود نہ ہو، اور پھر بھی اس کی گرفتاری کی افواہ پھیلائی جائے، تو یہ قانونی جرم کے زمرے میں آ سکتا ہے۔ ایسی معلومات پھیلانے والے افراد کے خلاف سائبر کرائم قوانین کے تحت کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔
ماہر قانون، ایڈووکیٹ حارث یوسفزئی کے مطابق:
"اگر کوئی ادارہ یا فرد جان بوجھ کر کسی شخص کی جھوٹی گرفتاری کی خبر پھیلائے، تو متاثرہ شخص ہتک عزت اور جھوٹی اطلاع دینے کے مقدمے درج کروا سکتا ہے۔”
سیاسی تناظر میں خبر کی حساسیت
سینیٹر ایمل ولی خان جیسے اہم سیاسی رہنما کی گرفتاری کی خبر نہ صرف سیاسی ماحول کو متاثر کرتی ہے بلکہ اس سے ملک میں جاری جمہوری بیانیے کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ایسے حالات میں جب ملک پہلے ہی سیاسی کشمکش کا شکار ہو، ایسی افواہیں مزید انتشار کا سبب بن سکتی ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر فرحان محسود کہتے ہیں:
"ایمل ولی خان جیسے رہنما کی گرفتاری کی خبر فوری طور پر کئی حلقوں کو مشتعل کر سکتی ہے۔ ایسے وقت میں جب ملک سیاسی استحکام کی راہ پر گامزن ہونا چاہتا ہے، اس قسم کی افواہیں زہرِ قاتل بن سکتی ہیں۔”
میڈیا کا کردار: احتیاط یا سنسنی؟
میڈیا کا کام درست، متوازن اور تصدیق شدہ معلومات کی ترسیل ہے، مگر بدقسمتی سے بعض چینلز اور صحافی صرف "سب سے پہلے” کی دوڑ میں تصدیق کے بغیر خبریں نشر کر دیتے ہیں۔ یہی معاملہ سینیٹر ایمل ولی خان کی مبینہ گرفتاری میں بھی سامنے آیا، جہاں بغیر کسی سرکاری تصدیق کے خبر چلائی گئی۔
صحافیوں کی تنظیموں نے بھی اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے میڈیا ہاؤسز سے کہا ہے کہ:
- تصدیق شدہ ذرائع سے ہی خبریں نشر کی جائیں
- سنسنی خیزی سے گریز کیا جائے
- قومی اداروں کی ساکھ کو مدنظر رکھا جائے
- ایمل ولی خان یا ان کی جماعت کی جانب سے ردعمل؟
ابھی تک سینیٹر ایمل ولی خان یا عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی جانب سے اس خبر پر باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔ تاہم امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ جلد اس معاملے پر وضاحت یا قانونی کارروائی کا اعلان کر سکتے ہیں، تاکہ آئندہ ایسی جھوٹی اطلاعات کے خلاف سخت پیغام دیا جا سکے۔
عوام سے اپیل: ذمہ داری کا مظاہرہ کریں
اسلام آباد پولیس کی وضاحت کے بعد یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ سینیٹر ایمل ولی خان کی گرفتاری کی خبر جھوٹی ہے۔ اس لیے عوام الناس سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ:
- غیر مصدقہ خبروں پر یقین نہ کریں
- ہر خبر کی تصدیق سرکاری ذرائع سے کریں
- سوشل میڈیا پر ذمہ داری کا مظاہرہ کریں
احتیاط، صداقت اور ذمہ داری ہی راستہ ہے
ایمل ولی خان کی گرفتاری سے متعلق خبریں ایک بار پھر ہمارے میڈیا کے معیار، سوشل میڈیا کے غلط استعمال اور عوامی شعور پر سوالیہ نشان چھوڑ گئیں۔ جہاں پولیس کی بروقت وضاحت نے معاملے کو سلجھا دیا، وہیں یہ واقعہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ:
"سچ اور جھوٹ کے درمیان لکیر دھندلی ہو جائے، تو اعتماد، ادارے اور جمہوریت سب خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔"
