اسلام آباد: سینیٹ نے خاتون کو برہنہ کرنے یا اغوا کے مجرم کو پناہ دینے پر سزائے موت ختم کرنے کا بل منظور کرلیا
اسلام آباد: سینیٹ نے فوجداری قوانین میں اہم ترمیم کرتے ہوئے ایسے مجرموں کو پناہ دینے والوں کے لیے سزائے موت کا قانون ختم کرنے کا بل کثرت رائے سے منظور کر لیا ہے، جو خاتون کو اغوا یا سرِعام برہنہ کرنے جیسے سنگین جرائم میں ملوث ہوں۔
نئے قانون کے تحت ایسے واقعات میں ملوث یا معاونت کرنے والے افراد کو بغیر وارنٹ گرفتار کیا جا سکے گا۔ یہ جرم ناقابلِ ضمانت اور ناقابلِ مصالحت قرار دیا گیا ہے۔ سزا میں عمر قید، جائیداد کی ضبطی اور جرمانہ شامل ہوں گے، تاہم سزائے موت کا اطلاق نہیں ہوگا۔
بل پر بحث کے دوران سینیٹ میں رائے کا شدید ٹکراؤ دیکھا گیا۔
سینیٹر علی ظفر نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا:
"عورت کو برہنہ کرنے جیسے گھناؤنے جرم پر سزائے موت برقرار رہنی چاہیے۔”
سینیٹر ثمینہ ممتاز نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا:
"ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم خواتین کو مزید کمزور کر رہے ہیں، یہ ترمیم بیرونی دباؤ پر کی جارہی ہے۔”
تاہم وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل کا دفاع کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا:
"یہ سوچ غلط ہے کہ سزا کی سنگینی جرائم کو روکتی ہے۔ ہمارے ہاں 100 سے زائد جرائم پر سزائے موت موجود ہے، لیکن جرائم کی شرح میں کمی نہیں آ رہی۔ یورپی ممالک میں سزائے موت نہیں مگر وہاں جرائم کم ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا:
"اکثر معمولی جھگڑوں میں بھی خواتین کے کپڑے اتارنے کا الزام لگا کر مخالفین پر سزائے موت کی دفعات لگوا دی جاتی ہیں، یہ غلط استعمال ہے۔”
وزیر قانون نے شریعت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی قوانین میں صرف چار جرائم ایسے ہیں جن پر سزائے موت دی جا سکتی ہے، باقی تمام مقدمات میں متبادل سزاؤں کا تصور موجود ہے۔