افغانستان میں انٹرنیٹ سروسز معطل – شہری رابطے بری طرح متاثر
طالبان حکومت کے حکم پر فائبر آپٹک پر پابندی، نیٹ بلاکس کی تشویشناک رپورٹ جاری
افغانستان ایک بار پھر دنیا سے کٹنے کے دہانے پر آ کھڑا ہوا ہے۔ رواں ہفتے ملک بھر میں اچانک بڑے پیمانے پر انٹرنیٹ اور کمیونیکیشن سروسز معطل کر دی گئیں، جس کے باعث کروڑوں افغان شہریوں کے معمولات زندگی شدید متاثر ہو گئے ہیں۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی اور انٹرنیٹ مانیٹرنگ تنظیم "نیٹ بلاکس” (NetBlocks) کے مطابق یہ معطلی نہ صرف وسیع پیمانے پر ہے، بلکہ اس کے پیچھے سیاسی اور نظریاتی محرکات بھی کارفرما ہیں۔
صرف 14 فیصد ٹیلی کام سروسز فعال — نیٹ بلاکس کی تصدیق
نیٹ بلاکس کی جانب سے جاری رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغانستان میں اس وقت صرف 14 فیصد ٹیلی کمیونیکیشن انفراسٹرکچر فعال ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کی بڑی اکثریت مکمل یا جزوی طور پر انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورک سے محروم ہو چکی ہے۔ رپورٹ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ موجودہ صورتحال کوئی تکنیکی خرابی یا قدرتی آفت کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ بظاہر جان بوجھ کر کیا گیا اقدام معلوم ہوتا ہے۔
یہ اطلاع اس وقت سامنے آئی جب افغان شہریوں نے سوشل میڈیا پر شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ کئی شہروں میں موبائل نیٹ ورک کام نہیں کر رہا، بین الاقوامی کالز ممکن نہیں، اور بینکنگ و آن لائن سروسز معطل ہو چکی ہیں۔
طالبان حکومت کی پالیسی: "غیر اخلاقی سرگرمیوں” کی روک تھام یا معلوماتی سنسرشپ؟
نیٹ بلاکس اور مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس معطلی کی جڑ طالبان حکومت کی نئی پالیسی سے جڑی ہے۔ رواں ماہ کے آغاز میں طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کی جانب سے ایک حکم نامہ جاری کیا گیا، جس میں متعدد صوبوں میں فائبر آپٹک انٹرنیٹ پر پابندی لگانے کا اعلان کیا گیا تھا۔
طالبان حکام کا مؤقف ہے کہ یہ اقدام معاشرتی بگاڑ اور "غیر اخلاقی سرگرمیوں” کو روکنے کے لیے ضروری ہے۔ ایک اعلیٰ طالبان عہدیدار کے مطابق:
"ہم نہیں چاہتے کہ مغربی دنیا کی اخلاقی گراوٹ ہمارے معاشرے کو متاثر کرے۔ انٹرنیٹ کا استعمال محدود کرنا ہماری دینی اور ثقافتی اقدار کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔”
تاہم، تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اصل مقصد نہ صرف آزاد معلومات کے بہاؤ کو روکنا ہے بلکہ ممکنہ طور پر داخلی تنقید اور اختلافی آوازوں کو دبانا بھی اس پالیسی کا حصہ ہے۔
متاثرہ صوبے: بدخشاں، تخار، قندھار، ہلمند، ننگرہار اور ارزگان سرفہرست
رپورٹس کے مطابق افغانستان کے متعدد صوبے مکمل یا جزوی طور پر انٹرنیٹ سے کٹ چکے ہیں۔ ان میں:
- بدخشاں
- تخار
- قندھار
- ہلمند
- ننگرہار
- ارزگان
جیسے اہم علاقے شامل ہیں جہاں تیز رفتار فائبر آپٹک نیٹ ورک مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ دیگر علاقوں میں بھی سروسز انتہائی سست روی کا شکار یا غیر یقینی صورت حال میں ہیں۔
یہ علاقے نہ صرف جغرافیائی اعتبار سے اہم ہیں بلکہ ان میں طالبان کے مختلف گروپوں کا اثر و رسوخ بھی زیادہ ہے، جس سے اس اقدام کے پیچھے سیاسی مفادات کی بو بھی آتی ہے۔
کابل حکومت کی سابقہ پالیسیوں سے تضاد
یہ امر حیران کن ہے کہ 2024 میں طالبان حکومت نے ہی فائبر آپٹک نیٹ ورک کو ملک کی ترقی کے لیے ایک اہم ترجیح قرار دیا تھا۔ اس وقت کابل انتظامیہ کا دعویٰ تھا کہ وہ افغانستان کو ڈیجیٹل دنیا سے جوڑ کر:
روزگار کے مواقع پیدا کرے گی،
نوجوانوں کو جدید تعلیم تک رسائی دے گی،
اور غربت میں کمی لانے کے لیے تکنیکی میدان میں پیش رفت کرے گی۔
تاہم، موجودہ معطلی اور پابندیوں نے ان دعوؤں کو مشکوک بنا دیا ہے۔ متعدد شہریوں نے سوشل میڈیا اور غیر ملکی میڈیا کے ذریعے یہ سوال اٹھایا ہے کہ:
"اگر ترقی کی راہ میں انٹرنیٹ کلیدی حیثیت رکھتا ہے، تو پھر اسے بند کیوں کیا جا رہا ہے؟”
اقتصادی اور سماجی اثرات — ایک بڑھتا ہوا بحران
انٹرنیٹ اور موبائل سروسز کی بندش کا سب سے زیادہ اثر عام افغان شہریوں پر پڑا ہے، جن کی زندگی کا انحصار اب بہت حد تک ڈیجیٹل سہولیات پر ہے۔ خاص طور پر:
- آن لائن تعلیم مکمل طور پر بند ہو چکی ہے۔
- ای-کامرس کاروبار متاثر ہو رہے ہیں۔
- بینکنگ سسٹمز سست یا ناکارہ ہو چکے ہیں۔
- صحافیوں، طلبا، اور فری لانسرز کو شدید مشکلات درپیش ہیں۔
ایک طالب علم نے بتایا:
"ہم آن لائن کلاسز کے ذریعے تعلیم حاصل کر رہے تھے، لیکن اب ہمارا مستقبل تاریکی میں ہے۔”
ایک فری لانسر نے شکایت کی:
"میرا سارا کام انٹرنیٹ پر ہے۔ موجودہ پابندی نے میری آمدنی روک دی ہے۔”
عالمی ردعمل اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی تشویش
انٹرنیٹ پر قدغن کی خبر پر دنیا بھر سے تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور دیگر بین الاقوامی اداروں نے اس اقدام کو:
- انسانی حقوق کی خلاف ورزی،
- آزادی اظہار رائے پر حملہ،
- اور افغان عوام کو معلومات سے محروم کرنے کی کوشش
قرار دیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے بیان میں کہا:
"انفارمیشن کا حق ایک بنیادی انسانی حق ہے، جسے کسی بھی حکومت کو سلب کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔”
سوشل میڈیا پر عوامی ردعمل
افغانستان کے اندر اور باہر لاکھوں افراد نے اس فیصلے پر سخت ردعمل دیا ہے۔ کئی افغان شہریوں نے وی پی این اور دیگر ذرائع سے سوشل میڈیا پر پوسٹس شیئر کرتے ہوئے کہا:
- "ہمیں دنیا سے کاٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔”
- "طالبان چاہتے ہیں کہ ہم صرف وہی سنیں جو وہ چاہیں۔”
- "یہ معلوماتی غلامی کی طرف قدم ہے۔”
آگے کیا ہوگا؟
فی الحال طالبان حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ سروسز کی مکمل بحالی کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔ اگر یہ معطلی طویل مدت تک جاری رہتی ہے تو:
- افغانستان کی معاشی بحالی مزید متاثر ہو سکتی ہے۔
- بین الاقوامی امداد اور روابط میں خلل پیدا ہو سکتا ہے۔
- اور عوامی بے چینی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
افغانستان پہلے ہی معاشی بحران، بے روزگاری، اور عالمی تنہائی کا شکار ہے۔ انٹرنیٹ بلیک آؤٹ جیسے اقدامات ملک کو مزید مشکلات کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔
معلومات تک رسائی — آزادی یا جرم؟
افغانستان میں انٹرنیٹ سروسز کی معطلی ایک علامتی سوال کھڑا کرتی ہے: کیا معلومات تک رسائی ایک بنیادی حق ہے، یا ایک ایسی سہولت جسے حکومت اپنی مرضی سے سلب کر سکتی ہے؟ جب تک اس سوال کا جواب عالمی سطح پر واضح نہیں ہوتا، افغانستان جیسے ممالک میں لاکھوں افراد معلوماتی تاریکی میں زندگی گزارنے پر مجبور رہیں گے۔

Comments 1