فلوٹیلا مشن اور گریٹا تھنبرگ کا کردار
دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف اپنی جدوجہد کے باعث مشہور سویڈش کارکن گریٹا تھنبرگ ایک بار پھر عالمی خبروں میں ہیں، مگر اس بار وجہ ان کا ماحولیاتی احتجاج نہیں بلکہ گریٹا تھنبرگ پر اسرائیلی تشدد کا دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔
گریٹا تھنبرگ، جو اقوام متحدہ سمیت مختلف عالمی فورمز پر ماحولیاتی تحفظ کی علمبردار کے طور پر جانی جاتی ہیں، حال ہی میں گلوبل صمود فلوٹیلا کے ساتھ غزہ کے لیے امداد لے جانے والے مشن میں شریک تھیں۔ اس فلوٹیلا میں متعدد ممالک کے انسانی حقوق کے کارکن، صحافی، اور سماجی نمائندے شامل تھے، جنہیں اسرائیلی فورسز نے بین الاقوامی پانیوں میں روک کر حراست میں لے لیا۔
اسرائیلی حراست میں غیر انسانی سلوک
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق سویڈش وزارتِ خارجہ کو موصول ہونے والی ایک ای میل میں بتایا گیا کہ گریٹا تھنبرگ پر اسرائیلی تشدد ہوا ہے، انہیں کم پانی اور خوراک دی گئی، اور ایک گندی کوٹھڑی میں قید رکھا گیا جہاں کھٹملوں کے کاٹنے سے ان کے جسم پر دانے اور خارش کے نشانات بن گئے۔
سفارتی اہلکاروں کے مطابق گریٹا تھنبرگ نے بتایا کہ انہیں طویل وقت تک فرش پر بٹھا کر رکھا گیا اور ان کے ساتھ مجموعی طور پر سخت رویہ اپنایا گیا۔
تشدد کے چشم دید گواہ
فلوٹیلا میں شریک ترک کارکن ارسن چلیک نے ترک میڈیا کو بتایا کہ “انہوں نے گریٹا کو بالوں سے گھسیٹا، مارا پیٹا اور انہیں اسرائیلی پرچم چومنے پر مجبور کیا۔ یہ سب دوسروں کو خوفزدہ کرنے کے لیے کیا گیا۔”
ایک اور شریک صحافی لورینزو ڈی آگوسٹینو نے استنبول واپسی پر بیان دیا کہ “گریٹا تھنبرگ کو اسرائیلی جھنڈے میں لپیٹ کر ایک ٹرافی کی طرح پیش کیا گیا، گویا وہ کوئی انعام ہوں۔”
یہ بیانات دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے تشویش کا باعث بن گئے ہیں، کیونکہ یہ معاملہ بین الاقوامی قوانین اور انسانی وقار کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
بین الاقوامی ردعمل اور سفارتی اقدامات
سویڈش حکومت نے فوری طور پر اسرائیل سے وضاحت طلب کی ہے۔ سویڈش وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ وہ گریٹا تھنبرگ کے ساتھ ہونے والے سلوک پر “انتہائی تشویش” کا اظہار کرتے ہیں اور اس واقعے کی مکمل تحقیقات چاہتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے بھی گریٹا تھنبرگ پر اسرائیلی تشدد کے واقعات پر نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ الزامات درست ثابت ہوئے تو یہ “انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی” ہے۔
عالمی میڈیا کی توجہ
گریٹا تھنبرگ کی گرفتاری اور تشدد کی خبروں نے سوشل میڈیا پر ہلچل مچا دی۔ #FreeGreta اور #StopIsraeliAbuse جیسے ہیش ٹیگز دنیا بھر میں ٹرینڈ کرنے لگے۔
ان کے لاکھوں مداحوں نے حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل پر سفارتی دباؤ ڈالیں تاکہ گریٹا تھنبرگ سمیت دیگر فلوٹیلا اراکین کے ساتھ انصاف ہو سکے۔
گریٹا تھنبرگ کی ماضی کی جدوجہد
گریٹا تھنبرگ وہی کارکن ہیں جنہوں نے 2018 میں “Fridays for Future” کے نام سے عالمی ماحولیاتی تحریک شروع کی تھی۔ وہ دنیا بھر کے نوجوانوں کے لیے ماحولیاتی تحفظ کی علامت بن چکی ہیں۔
ان کی گرفتاری اور گریٹا تھنبرگ پر اسرائیلی تشدد کا انکشاف اس لیے بھی زیادہ سنگین سمجھا جا رہا ہے کیونکہ وہ ہمیشہ پرامن اور غیر سیاسی سرگرمیوں کی حامی رہی ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا موقف
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے اسرائیل سے فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ان تنظیموں کے مطابق اگر گریٹا تھنبرگ پر تشدد اور غیر انسانی سلوک کے شواہد درست ہیں، تو یہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
ماہرین کا تجزیہ
بین الاقوامی امور کے ماہرین کے مطابق یہ واقعہ صرف ایک انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں بلکہ ایک “سفارتی بحران” بھی ہے۔ سویڈن اور اسرائیل کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
ماہر قانون ڈاکٹر حسن جعفر کا کہنا ہے کہ “اگر کسی غیر ملکی شہری کے ساتھ دورانِ حراست ایسا سلوک کیا گیا ہو، تو یہ ویانا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہے۔”
فلوٹیلا کے دیگر شرکا کی رہائی
اسرائیلی حراست سے رہائی کے بعد گلوبل صمود فلوٹیلا کے 137 کارکن ترکی پہنچ گئے جن میں امریکا، برطانیہ، اٹلی، اردن، کویت، الجزائر، ماریطانیہ، ملائیشیا اور بحرین کے نمائندے شامل تھے۔
انہوں نے استنبول میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اسرائیلی سلوک کو “وحشیانہ اور غیر انسانی” قرار دیا۔
غزہ کے لیے نئی امدادی فلوٹیلا اسرائیلی ناکہ بندی توڑنے کے لیے روانہ
گریٹا تھنبرگ، جو دنیا کے لیے امید اور ماحول کے تحفظ کی علامت سمجھی جاتی ہیں، اب ظلم اور ناانصافی کے خلاف مزاحمت کی نئی مثال بن چکی ہیں۔
گریٹا تھنبرگ پر اسرائیلی تشدد کا یہ واقعہ نہ صرف انسانی حقوق کے حوالے سے ایک سوالیہ نشان ہے بلکہ اس نے دنیا کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ آزادیٔ اظہار اور انسانی وقار کہاں کھڑے ہیں۔
Comments 1