بارشوں کے بعد سندھ میں ملیریا کے کیسز میں اضافہ – خطرناک صورتحال اور احتیاطی تدابیر
حالیہ بارشوں کے بعد سندھ بھر میں ملیریا کے کیسز میں اضافہ ایک تشویشناک صورتحال اختیار کر چکا ہے۔ محکمہ صحت کے جاری کردہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق جنوری سے 25 اگست تک صوبے بھر میں ملیریا کے ایک لاکھ 16 ہزار 828 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان کیسز میں بچوں اور خواتین کی تعداد بھی خاصی زیادہ ہے، جو اس مرض کے پھیلاؤ کی شدت کو ظاہر کرتی ہے۔
کراچی میں ملیریا کے کیسز کی صورتحال
کراچی جیسے بڑے شہر میں بھی ملیریا کے کیسز میں اضافہ واضح طور پر دیکھا گیا ہے۔ مجموعی طور پر شہر میں 1,200 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ضلع ملیر ہے جہاں 432 کیسز سامنے آئے۔ طبی ماہرین کے مطابق شہری علاقوں میں کھلے پانی کا جمع ہونا، ناقص نکاسی آب اور صفائی کی کمی ملیریا کے پھیلاؤ کو تیز کر رہی ہے۔
دیہی ڈویژنز میں زیادہ متاثرہ علاقے
ملک کے بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ سندھ کے دیہی علاقے بھی ملیریا سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ حیدرآباد ڈویژن میں ملیریا کے کیسز میں اضافہ سب سے زیادہ دیکھا گیا ہے جہاں 50,499 کیسز رپورٹ ہوئے۔ اسی طرح لاڑکانہ ڈویژن میں 33,333 اور سکھر ڈویژن میں 9,263 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ کے دیہی اور نیم شہری علاقے ملیریا کے خطرے میں زیادہ ہیں، جہاں طبی سہولیات کی کمی بھی مرض کے پھیلاؤ کو روکنے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔
وجوہات جو ملیریا کے کیسز میں اضافے کا سبب بنیں
ماہرین صحت کے مطابق حالیہ بارشوں کے بعد جمع ہونے والا پانی اور اس میں مچھروں کی افزائش ملیریا کے کیسز میں اضافہ کی بنیادی وجہ ہے۔ نکاسی آب کے ناقص نظام اور صفائی کی کمی نے اس مسئلے کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ کچھ اہم وجوہات درج ذیل ہیں:
بارشوں کے بعد کھلے پانی کا جمع ہونا
صفائی اور نکاسی آب کے نظام کی ناکامی
گندے اور آلودہ پانی کے ذخائر
مچھروں سے بچاؤ کے اقدامات کی کمی
بروقت تشخیص اور علاج نہ ہونا
صحت کے ماہرین کی وارننگ
صحت کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو سندھ میں ملیریا کے کیسز میں اضافہ مزید تیز ہو سکتا ہے۔ انہوں نے شہریوں کو ہدایت دی ہے کہ گھروں اور اردگرد کے علاقوں کو خشک اور صاف رکھیں، مچھر مار اسپرے اور جالیوں کا استعمال کریں، اور کسی بھی بخار یا کمزوری کی صورت میں فوری طور پر قریبی اسپتال یا کلینک سے رجوع کریں۔
محکمہ صحت کے اقدامات
محکمہ صحت سندھ نے اعتراف کیا ہے کہ بارشوں کے بعد ملیریا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ محکمے نے کچھ اہم اقدامات کا آغاز کیا ہے جن میں شامل ہیں:
متاثرہ علاقوں میں اسپرے اور فوگنگ کا آغاز
بنیادی مراکز صحت میں ملیریا کی فوری تشخیص کی سہولیات فراہم کرنا
عوام میں آگاہی مہمات کا انعقاد
ادویات اور علاج کی فراہمی کو یقینی بنانا
تاہم طبی ماہرین کے مطابق یہ اقدامات ناکافی ہیں جب تک کہ عوام خود بھی احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل نہ کریں۔
ملیریا کے عام علامات
ملیریا کے کیسز میں اضافہ کی وجہ سے شہریوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس مرض کی علامات کو پہچانیں تاکہ بروقت علاج ممکن ہو سکے۔ ملیریا کی عام علامات درج ذیل ہیں:
تیز بخار جو وقفے وقفے سے آتا ہے
شدید کپکپی اور پسینہ آنا
جسمانی کمزوری اور تھکن
سر درد اور پٹھوں میں درد
متلی یا الٹی
اگر یہ علامات ظاہر ہوں تو فوراً قریبی طبی مرکز سے رجوع کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ مرض کی شدت کو کم کیا جا سکے۔
عوامی شعور اور احتیاطی تدابیر
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ملیریا کے کیسز میں اضافہ روکنے کے لیے عوامی شعور میں اضافہ سب سے اہم قدم ہے۔ احتیاطی تدابیر اختیار کرکے اس مرض سے بڑی حد تک بچا جا سکتا ہے۔ چند بنیادی احتیاطی تدابیر درج ذیل ہیں:
گھروں اور گلیوں میں پانی جمع نہ ہونے دیں
مچھر دانی یا جالی کا استعمال کریں
بچوں کو مچھر سے بچاؤ کی ادویات لگائیں
صبح اور شام کے اوقات میں زیادہ احتیاط کریں، کیونکہ ان اوقات میں مچھر زیادہ فعال ہوتے ہیں
گندے پانی کے ذخائر ختم کرنے کے لیے مقامی انتظامیہ سے رابطہ کریں
معاشرتی اور حکومتی کردار
ملیریا کے کیسز میں اضافہ صرف فرد کی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی ذمہ داری بن چکا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے حکومت، صحت کے ادارے اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ حکومتی سطح پر مؤثر حکمت عملی، نکاسی آب کے نظام میں بہتری، اور متاثرہ علاقوں میں فوری اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ اسی طرح عوام کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی سطح پر صفائی کا خیال رکھیں اور مچھروں کی افزائش کو کم کرنے میں کردار ادا کریں۔
راولپنڈی ڈینگی صورتحال پر ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی کی رپورٹ جاری
بارشوں کے بعد سندھ میں ملیریا کے کیسز میں اضافہ ایک سنگین صحت عامہ کا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف شہریوں کی صحت کو خطرے میں ڈال رہی ہے بلکہ صحت کے نظام پر بھی دباؤ ڈال رہی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ حکومتی ادارے اور عوام مل کر اس مرض کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔ بروقت احتیاطی تدابیر، علاج اور آگاہی ہی اس مسئلے کا پائیدار حل ثابت ہو سکتے ہیں۔