شمالی کوریا کا واضح پیغام: "ایٹمی طاقت تسلیم کریں، پھر بات کریں” – کم یو جانگ کا امریکا کو دوٹوک جواب
پیونگ یانگ / واشنگٹن / سیول:
شمالی کوریا نے ایک بار پھر اپنے ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق عالمی دباؤ اور کسی ممکنہ معاہدے کے امکان کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔ اس بار یہ دوٹوک مؤقف ملک کے سپریم لیڈر کم جونگ اُن کی بااثر بہن کم یو جانگ کی جانب سے سامنے آیا ہے، جنہیں نہ صرف شمالی کوریا کی سیاسی قیادت میں مرکزی مقام حاصل ہے بلکہ وہ عالمی سفارت کاری میں بھی اپنا بھرپور اثر رکھتی ہیں۔
"ہم ایٹمی طاقت ہیں، ہمیں تسلیم کیا جائے” — کم یو جانگ
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق کم یو جانگ نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ان کے تعلقات خراب نہیں، تاہم ایٹمی پروگرام پر کسی رعایت یا سمجھوتے کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ ان کا کہنا تھا:
"امریکا اگر واقعی مذاکرات چاہتا ہے تو پہلے شمالی کوریا کو ایٹمی طاقت تسلیم کرے اور ہمارے ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے کا مطالبہ ترک کرے۔”
کم یو جانگ کے اس بیان کو بین الاقوامی سطح پر نہایت اہمیت دی جا رہی ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن کے ممکنہ روس کے دورے کی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں، اور خطے میں بڑی طاقتوں کے درمیان نئی صف بندیاں جنم لے رہی ہیں۔
ٹرمپ کا عندیہ اور شمالی کوریا کا سخت ردعمل
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ انٹرویوز میں عندیہ دیا ہے کہ وہ 2018 میں شمالی کوریا کے ساتھ شروع ہونے والے سفارتی عمل کو دوبارہ بحال ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی مراد سنگاپور اور ہنوئی میں ہونے والی تاریخی ملاقاتوں سے ہے، جن میں شمالی کوریا کی جانب سے ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے پر بات ہوئی تھی، مگر کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔
تاہم کم یو جانگ کا حالیہ بیان ٹرمپ کے اس عندیے پر سخت اور غیر لچکدار موقف کے طور پر ابھرا ہے۔ یہ موقف واضح کرتا ہے کہ پیونگ یانگ اب ماضی کی طرز پر کسی عارضی معاہدے یا رعایت کی پالیسی پر آمادہ نہیں بلکہ اپنی ایٹمی شناخت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کروانے کے لیے ڈٹ گیا ہے۔
روس اور چین کے ساتھ بڑھتا اتحاد — نئی جغرافیائی صف بندی؟
کم جونگ اُن کا ممکنہ روس کا دورہ اور حالیہ برسوں میں چین و روس کے ساتھ بڑھتا ہوا تعلق عالمی سطح پر ایک نئی جغرافیائی اسٹریٹیجک صف بندی کا اشارہ دے رہا ہے۔ امریکا، جاپان اور جنوبی کوریا نہ صرف اس پیش رفت کو خطرناک رجحان قرار دے رہے ہیں بلکہ وہ ان علاقائی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ اور پینٹاگون کی رپورٹس کے مطابق، شمالی کوریا روس کے ساتھ دفاعی، عسکری اور ٹیکنالوجی تعاون کو فروغ دے رہا ہے، جبکہ چین کے ساتھ اقتصادی، مالیاتی اور توانائی کے منصوبے زیر غور ہیں۔ یہ اتحاد ممکنہ طور پر خطے میں امریکا کے اثرورسوخ کو چیلنج کرنے کی کوشش سمجھا جا رہا ہے۔
امریکا اور اتحادیوں کی تشویش
امریکا، جاپان، جنوبی کوریا اور یورپی اتحادیوں نے ایک مرتبہ پھر شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کو عالمی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ امریکی تھنک ٹینکس اور دفاعی ماہرین کا ماننا ہے کہ پیونگ یانگ کی جانب سے مسلسل میزائل تجربے اور ایٹمی صلاحیت کے دعوے دنیا کو ایک نئے ہتھیاروں کی دوڑ کی جانب دھکیل سکتے ہیں۔
امریکی قومی سلامتی مشیر نے حال ہی میں کہا تھا:
"شمالی کوریا کی ایٹمی ضد نہ صرف خطے بلکہ عالمی نظام کے لیے ایک چیلنج ہے، اور امریکا اس کا بھرپور توڑ کرے گا۔”
سفارتی کوششیں یا عسکری دباؤ؟
واشنگٹن میں اس وقت پالیسی سازوں کے درمیان ایک اہم بحث جاری ہے کہ آیا پیونگ یانگ سے نمٹنے کے لیے سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں یا عسکری و اقتصادی دباؤ کو مزید بڑھایا جائے۔ ادھر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل بھی شمالی کوریا پر عائد پابندیوں میں سختی کی تجویز زیر غور رکھتی ہے، تاہم چین اور روس کی حمایت کے بغیر ان پر عمل درآمد مشکل نظر آتا ہے۔
کم یو جانگ کا سیاسی کردار — صرف بہن نہیں، پالیسی ساز بھی
یہ بات قابل ذکر ہے کہ کم یو جانگ شمالی کوریا کے محض سربراہ کی بہن نہیں بلکہ وہ عملی طور پر ملک کی خارجہ پالیسی کی ایک طاقتور چہرہ بن چکی ہیں۔ وہ متعدد بار جنوبی کوریا، امریکا، اور اقوام متحدہ کے خلاف سخت بیانات دے چکی ہیں، اور انہیں "دوسری کمانڈر” کے طور پر جانا جاتا ہے۔
ان کے حالیہ بیان سے نہ صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پیونگ یانگ کی قیادت میں یکجہتی موجود ہے بلکہ وہ مستقبل میں بھی امریکا کے ساتھ بات چیت کو ایٹمی تسلیم سے مشروط رکھنا چاہتے ہیں۔
نتیجہ: ایک نیا سفارتی بحران؟
شمالی کوریا کے اس حالیہ مؤقف سے خطے میں ایک نئی کشیدگی کی فضا بن رہی ہے۔ اگر امریکا کم یو جانگ کے بیان کو نظر انداز کرتا ہے تو پیونگ یانگ مزید میزائل یا ایٹمی تجربات کر کے عالمی دباؤ بڑھا سکتا ہے۔ اور اگر امریکا مذاکرات کے لیے تیار ہوتا ہے تو اسے ایک نئی حکمت عملی اپنانا پڑے گی — ایک ایسی پالیسی جو دھمکیوں، پابندیوں اور لچکدار مذاکرات کے درمیان توازن قائم کرے۔
عالمی برادری کے لیے لمحہ فکریہ
یہ صورتحال عالمی طاقتوں، خاص طور پر اقوامِ متحدہ، چین، روس اور یورپی یونین کے لیے ایک سنجیدہ امتحان ہے کہ آیا وہ ایٹمی پھیلاؤ کو روکنے میں کردار ادا کریں گے یا ایک نئی سرد جنگ کے منظرنامے کو وقوع پذیر ہونے دیں گے۔