پلاسٹک کے ننھے ذرات کے اثرات: انسانی معدے پر نیا انکشاف
پلاسٹک کی آلودگی اب صرف ماحول تک محدود نہیں رہی، بلکہ یہ انسانی جسم کے اندر بھی اپنی موجودگی ظاہر کر چکی ہے۔ حالیہ تحقیق میں پہلی بار یہ واضح طور پر سامنے آیا ہے کہ پلاسٹک کے ننھے ذرات کے اثرات انسانی معدے کے نظام پر براہِ راست مرتب ہوتے ہیں۔
یہ تحقیق آسٹریا کی معروف Medical University of Graz میں کی گئی، جس میں انسانی فضلے کے نمونوں کا تفصیلی تجزیہ کیا گیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ ننھے ذرات کس طرح جسم میں داخل ہو کر معدے کے بیکٹیریا پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق یہ پلاسٹک کے ننھے ذرات کے اثرات غذا، پانی یا سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے آنتوں اور معدے میں موجود مائیکرو بیکٹیریا کو متاثر کرتے ہیں۔ انسانی معدے میں اربوں بیکٹیریا پائے جاتے ہیں جو خوراک ہضم کرنے، مدافعتی نظام کو مستحکم رکھنے اور ذہنی صحت میں کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن جب یہ توازن بگڑ جائے تو اس کے اثرات جسمانی توانائی، مزاج، اور حتیٰ کہ ہارمونز تک پر پڑ سکتے ہیں۔
تحقیقی ماہرین نے بتایا کہ انسانی فضلے میں موجود بیکٹیریا کو مختلف اقسام کے پلاسٹک کے ننھے ذرات سے آلودہ کیا گیا۔ مشاہدے میں آیا کہ پلاسٹک کے ننھے ذرات کے اثرات سے بیکٹیریا کی تعداد میں بڑی تبدیلی نہیں آئی، مگر ان کے رویے میں نمایاں فرق دیکھا گیا۔ ان کے ماحول میں تیزابیت کی سطح بڑھ گئی، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ بیکٹیریا پلاسٹک کے ذرات پر کیمیائی ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔
مزید تحقیق میں معلوم ہوا کہ کچھ بیکٹیریا کی افزائش تیز ہوگئی جبکہ کچھ کی تعداد تیزی سے کم ہونے لگی۔ یہ غیر معمولی تبدیلیاں انہی علامات سے مشابہت رکھتی ہیں جو اکثر آنتوں کے کینسر یا ڈپریشن کے مریضوں میں دیکھی جاتی ہیں۔
اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ پلاسٹک کے ننھے ذرات کے اثرات انسانی نظامِ ہاضمہ میں موجود قدرتی توازن کو بگاڑ سکتے ہیں، جو طویل المدت بنیادوں پر خطرناک بیماریوں کی بنیاد بن سکتا ہے۔
تحقیق کاروں کے مطابق پلاسٹک کی ہر قسم مختلف انداز سے بیکٹیریا پر اثر انداز ہوتی ہے۔ کچھ اقسام توانائی کے عمل (metabolism) کو متاثر کرتی ہیں، کچھ تیزابیت کے توازن میں مداخلت کرتی ہیں، جبکہ کچھ amino acids کی سرگرمی کو متاثر کرتی ہیں۔ ان سب عوامل کے ملاپ سے معدے میں ایک ایسا ماحول پیدا ہوتا ہے جو صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔
ماہرین نے یہ بھی نشاندہی کی کہ پلاسٹک کے ننھے ذرات کے اثرات صرف معدے تک محدود نہیں، بلکہ یہ جسم کے دیگر اعضاء تک بھی جا سکتے ہیں۔ پچھلی تحقیقات میں پلاسٹک کے ذرات کو انسانی خون، پھیپھڑوں، جگر، اور حتیٰ کہ دل کے بافتوں میں بھی دریافت کیا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آلودگی ایک عالمی انسانی مسئلہ بن چکی ہے۔
تحقیق کے سربراہ پروفیسر ہیرالڈ میئر نے بتایا کہ "ہم ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں، مگر جو شواہد سامنے آئے ہیں وہ تشویشناک ہیں۔ پلاسٹک کے ننھے ذرات کے اثرات بیکٹیریا کے توازن کو اس طرح متاثر کرتے ہیں جیسے کسی پیچیدہ نظام میں معمولی تبدیلی پورے ڈھانچے کو ہلا دیتی ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ مائیکرو پلاسٹک میں موجود کیمیائی اجزاء جیسے phthalates اور bisphenol A براہِ راست بیکٹیریا کے metabolic pathways پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ اجزاء نہ صرف ہارمونز کے نظام کو متاثر کر سکتے ہیں بلکہ مدافعتی نظام میں بھی بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔
عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 300 ملین ٹن پلاسٹک پیدا ہوتا ہے، جس میں سے ایک بڑا حصہ سمندروں اور خوراکی زنجیروں میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس طرح پلاسٹک کے ننھے ذرات کے اثرات ایک عالمی صحت کا مسئلہ بنتے جا رہے ہیں۔
نئی تحقیق میں انکشاف پلاسٹک کی بوتل سے پانی پینا صحت کے لیے نقصان دہ
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والی نسلوں کو ناقابلِ تلافی صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے تجویز دی ہے کہ حکومتیں اور ادارے پلاسٹک کے استعمال میں کمی، ری سائیکلنگ کے فروغ اور محفوظ متبادل مواد کے استعمال پر توجہ دیں تاکہ پلاسٹک کے ننھے ذرات کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔