ایمل ولی خان کی سیکیورٹی واپس؟ آئی جی کے اقدام پر سیاسی طوفان — وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا ردعمل
خیبرپختونخوا میں ایک نئی سیاسی کشیدگی نے جنم لیا ہے، جہاں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے مرکزی صدر ایمل ولی خان کی سیکیورٹی اچانک واپس لے لی گئی، جبکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی آمین گنڈاپور کی جانب سے سیکیورٹی برقرار رکھنے کی واضح ہدایت دی گئی تھی۔ اس اقدام نے صوبے میں نہ صرف ایک سیاسی طوفان کھڑا کر دیا ہے بلکہ یہ سوال بھی پیدا کر دیا ہے کہ آیا منتخب حکومت اپنے ہی ماتحت اداروں پر اختیار رکھتی ہے یا نہیں۔
سیکیورٹی واپس لینے کا معاملہ کیسے شروع ہوا؟
ذرائع کے مطابق، آئی جی خیبرپختونخوا پولیس نے وزیراعلیٰ کی واضح ہدایات کے باوجود ایمل ولی خان کو دی گئی سیکیورٹی واپس لے لی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے سیکیورٹی واپس لینے کے بعد اب خیبرپختونخوا پولیس کی جانب سے تعینات اہلکار بھی آج صبح لائن حاضر کر دیے گئے، جس کے بعد ایمل ولی خان کی ذاتی سیکیورٹی مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔
یہ پیشرفت ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب ملک میں سیاسی گرما گرمی عروج پر ہے، اور عوامی نیشنل پارٹی مختلف فورمز پر سیاسی آزادی، شفاف انتخابات اور آئینی بالادستی کے لیے آواز بلند کر رہی ہے۔
اے این پی کا سخت ردعمل: "وزیراعلیٰ بےاختیار نظر آتے ہیں”
عوامی نیشنل پارٹی نے اس فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اے این پی کے ترجمان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
"وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی آمین گنڈاپور نے ایمل ولی خان کی سیکیورٹی برقرار رکھنے کی یقین دہانی کرائی تھی، مگر ان کے احکامات کو نظرانداز کیا گیا۔ ہم وزیراعلیٰ کے مؤقف کا خیر مقدم کرتے ہیں، مگر ایسا لگتا ہے کہ وہ خود بھی بااختیار نہیں۔”
ترجمان نے مزید کہا کہ یہ اقدام سیاسی انتقام کے مترادف ہے اور اس سے صوبے میں امن و امان کے حوالے سے سوالات جنم لے رہے ہیں۔
انجینئر احسان اللہ خان: "ہائبرڈ ریجیم کے پارٹنرز نے وزیراعلیٰ کو بھی یرغمال بنا رکھا ہے”
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما انجینئر احسان اللہ خان نے معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے سخت زبان استعمال کی۔ ان کا کہنا تھا:
"یہ ہائبرڈ ریجیم کا تسلسل ہے، جس میں منتخب نمائندے محض کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں۔ وزیراعلیٰ کو بھی اس نظام نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ وہ اپنے ہی آئی جی پولیس کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔”
انہوں نے اعلان کیا کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت آج ہنگامی اجلاس میں ایمل ولی خان کی سیکیورٹی کے لیے نیا لائحہ عمل طے کرے گی، اور اگر ضرورت پڑی تو قانونی و عوامی سطح پر بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔
وزیراعلیٰ ہاؤس کا مؤقف: "سیکیورٹی واپس لینے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں”
اس تمام صورتحال کے برعکس وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے ترجمان نے اس دعوے کی سختی سے تردید کی ہے کہ ایمل ولی خان کی سیکیورٹی واپس لی گئی ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے:
"ایمل ولی خان کی سیکیورٹی سے متعلق تمام قیاس آرائیاں بے بنیاد اور گمراہ کن ہیں۔ ریجنل پولیس آفیسر (RPO) ایمل ولی خان سے مسلسل رابطے میں ہیں تاکہ ان کے اعتماد کے مطابق سیکیورٹی فراہم کی جا سکے۔”
ترجمان نے مزید کہا کہ ایمل ولی خان کے اعتماد کے اہلکاروں کی فہرست حاصل کر کے انہیں خواہش کے مطابق سیکیورٹی دی جا رہی ہے۔ وزیراعلیٰ کی واضح ہدایت ہے کہ کسی بھی صورت میں سیکیورٹی واپس نہ لی جائے بلکہ اگر ضرورت ہو تو مزید اہلکار فراہم کیے جائیں۔
سوشل میڈیا پر صورتحال گرما گرم
واقعے کی خبر سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ صحافی، تجزیہ کار اور عوامی حلقے اس اقدام کو "ریاستی جبر” اور "منتخب سیاسی قیادت کو دبانے کی کوشش” قرار دے رہے ہیں۔ ٹوئٹر پر #SecurityForAimalWali اور #ANPUnderThreat جیسے ہیش ٹیگز ٹرینڈ کرنے لگے۔
کچھ صارفین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر ایمل ولی خان کی سیکیورٹی بحال کرے، جبکہ بعض کا کہنا تھا کہ ایسی پالیسیاں ملک میں جمہوریت کو مزید کمزور کر رہی ہیں۔
سیاسی و قانونی مضمرات
یہ واقعہ کئی سیاسی و قانونی سوالات کو جنم دیتا ہے:
- کیا آئی جی خیبرپختونخوا واقعی وزیراعلیٰ کے احکامات کو نظرانداز کر سکتے ہیں؟
- کیا ایمل ولی خان کو خطرات لاحق ہیں جن کی بنیاد پر سیکیورٹی دی گئی تھی؟ اگر ہاں، تو پھر واپسی کیوں؟
- اگر سیکیورٹی واپس نہیں لی گئی، تو اے این پی ایسی خبریں کیوں پھیلا رہی ہے؟
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر یہ دعویٰ درست ہے کہ وزیراعلیٰ بےاختیار ہیں تو یہ آئینی بحران کی نشاندہی کرتا ہے۔ دوسری طرف اگر اے این پی کی جانب سے معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش ہو رہی ہے، تو اس کے بھی اپنے منفی اثرات ہو سکتے ہیں۔
وفاق اور صوبے کا تعلق بھی سوالیہ نشان؟
یاد رہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے بھی کچھ ماہ قبل ایمل ولی خان کی سیکیورٹی میں کمی کی گئی تھی۔ اب جب صوبائی سطح پر بھی یہ معاملہ سامنے آیا ہے، تو سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ کیا یہ کسی منظم پالیسی کا حصہ ہے؟ اے این پی اس خدشے کا اظہار کر چکی ہے کہ ملک میں جمہوری آوازوں کو دبانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
ایمل ولی خان کا ردعمل متوقع
ایمل ولی خان کی جانب سے تاحال کوئی براہ راست بیان سامنے نہیں آیا، تاہم قریبی ذرائع کے مطابق وہ اس صورتحال پر جلد عوامی مؤقف جاری کریں گے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ آئندہ چند روز میں پریس کانفرنس کے ذریعے تمام حقائق سامنے رکھیں گے اور ممکنہ خطرات سے بھی آگاہ کریں گے۔
ایک حساس معاملہ، جسے سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے
ایمل ولی خان کی سیکیورٹی سے متعلق یہ معاملہ محض ایک شخص کی حفاظت کا نہیں، بلکہ یہ اس بات کا آئینہ دار ہے کہ صوبے میں حکمرانی کس کے ہاتھ میں ہے؟ کیا منتخب وزیراعلیٰ واقعی بااختیار ہیں؟ کیا سیاسی اختلاف رکھنے والے رہنماؤں کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق تحفظ دیا جا رہا ہے؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات صرف خیبرپختونخوا حکومت ہی نہیں بلکہ پورے ملک کی سیاسی فضا کو متاثر کریں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ مکمل شفافیت کے ساتھ اس معاملے کو سلجھائے، تاکہ نہ صرف سیاسی جماعتوں کا اعتماد بحال ہو بلکہ عوام کو بھی یہ یقین دلایا جا سکے کہ قانون اور آئین سب کے لیے برابر ہے۔
Comments 1