تحریر:شاہنواز خان
یوں لگتا ہے جیسے۔۔۔۔ وقت نے ایک بار پھر تاریخ کے پرانے صفحات کو الٹ کر ایک نیا باب لکھ دیا ۔۔۔۔۔ وہی پاکستان، جو کبھی سرد جنگ میں امریکا کا منظورِ نظر تھا۔۔۔۔۔۔، آج پھر عالمی بساط پر نمایاں ہو کر اُبھرا ہے۔۔۔۔۔ فرق مگر یہ ہے کہ اس بار کسی جنرل مشرف کا دور نہیں۔۔۔۔۔ بلکہ ایک ایسے سپہ سالار کا زمانہ ہے جسے تاریخ بہادر کمانڈروں کے قافلے میں شمار کرے گی ،،،،،،،،،،
فیلڈ مارشل عاصم منیر۔،،،،،،،،،،،،دنیا کے نقشے پر آج کا پاکستان گویا کسی ناول کا وہ کردار ہے،،،،،، جو کئی امتحانوں، سازشوں اور طوفانوں سے گزر کر اپنے اصل مقام پر آن پہنچا ہو۔۔۔۔۔۔ مغرب کی نگاہوں میں یہ ملک کبھی ایک معمہ، کبھی بوجھ اور کبھی ضرورت ٹھہرا۔۔۔۔۔۔۔
مگر آج وہی پاکستان واشنگٹن کے ایوانوں،،،،،،،، ریاض و انقرہ کے درباروں،،،،،،،، اور بیجنگ و ماسکو کے ایجنڈوں میں محور بنا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔غزہ کی گلیوں سے اُٹھتی بارود کی مہک۔۔۔۔ اور معصوم لاشوں کا ماتم،،،،، اس صدی کے سب سے کربناکباب۔۔۔۔۔ انہی دنوں جب اسلامی دنیا کا دل زخمی تھا۔۔۔۔، امریکا نے ایک20نکاتی منصوبہ پیش کر کے گویا تاریخ کے رخ کو تھامنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔ عرب دنیا کے بادشاہ،،،، صدر اور امیر یکجا ہو کر وائٹ ہاؤس کے مہمان بنے،،،،،، اور دنیا نے یہ منظر دیکھا کہ جب مفاد اور مصیبت دونوں ایک ہی میز پر بیٹھ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی موقع پر پاکستان کے وزیراعظم اور فیلڈ مارشل کی امریکی صدر سے ملاقات ہوئی۔ گویا لاہور اور اسلام آباد کی سرزمین پر چلنے والے یہ رہنما ،،،،،،اُس شطرنج کی بساط پر آ گئے تھے،،،،، جہاں چالیں صرف ملکوں کی نہیں، صدیوں کی تقدیروں کی ہوتی ہیں۔۔۔۔۔ادھر بھارت اپنی ساکھ کے کٹہرے میں کھڑا ہے۔۔۔۔ مودی سرکار کی پالیسیوں نے عالمی سطح پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔۔۔۔ صدر ٹرمپ کی زبان پر بھی تنقید کے تیر برس رہے ہیں،،،، اور عالمی میڈیا میں کشمیر و خالصتان کے نام پھر سے گونج رہے ہیں،،،،،۔
تاریخ نے جیسے پلٹ کر دہلی کو یاد دلایا ہو کہ ظلم کی حکمرانی جتنی بھی طاقتور ہو،،،،،،، اس کے پاؤں ہمیشہ ریت پر ہی کھڑے ہوتے ہیں۔

گریٹر اسرائیل کا توڑصدیوں پرانے عرب و عجم کے فاصلے مٹتے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔ سعودی عرب اور پاکستان کا نیا اتحاد۔۔۔ گویا ایک ایسا قلعہ بنتا جا رہا ہے۔۔۔۔۔ جو گریٹر اسرائیل جیسے منصوبوں کے مقابلے میں ڈھال بن سکے۔۔۔۔۔ اس اتحاد میں عسکری طاقت بھی ہے،،،،،، اقتصادی امکانات بھی،،،،،،، اور سب سے بڑھ کر ایمان کی وہ لَو ہے،،،،،، جو جب روشن ہو تو بڑی بڑی سلطنتوں کے ایوان ہلا دیتی ہے،،،،،،،۔یہی وہ لمحہ ہے جب ترکیہ اپنی خوش آئند تائید کے ساتھ شامل ہوتا ہے،،،،،،،،
ایران اور چین اپنی تزویراتی زبان میں ہم زبان بنتے ہیں،،،،،، اور روس بھی اس محور کے قریب دکھائی دیتا ہے۔ تاریخ کے صفحات ۔۔۔۔گویا ایک نئے عالمی توازن کی کہانی لکھنے کو بے قرار ہیں۔۔۔۔پاکستان کا عزم اور مستقبل کی جھلک ۔۔۔۔اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم کا خطاب،،، محض ایک تقریر نہیں تھا، بلکہ ایک اعلان تھا —دہشتگردی،،،،،،، بھارتی ریاستی جبر،،،،،،،، اور خوارج و ہندوتوا کے گٹھ جوڑ کے خلاف،،،،،۔
افغانستان سے اٹھنے والے حملوں کا ذکر بھی کیا گیا،،،،،،، اور اس کے جواب میں جنرل عاصم منیر کے عزم کا حوالہ بھی آیا۔۔۔۔۔ دنیا نے دیکھا کہ پاکستان اب دفاعی نہیں۔۔۔۔ بلکہ بیانیاتی سطح پر بھی برملا اور دوٹوک کھڑا ہے۔۔۔۔۔یہ سب منظر ایسے محسوس ہوتے ہیں جیسے تاریخ کے پردے کے پیچھے۔۔۔۔ کوئی بڑی تقدیر لکھی جا رہی ہو۔۔۔۔ کیا یہ صدی وہ ہوگی،،،، جب پاکستان اپنی اصل طاقت پہچان لے گا؟ ،،،،،کیا مشرقِ وسطیٰ کے خاکستر سے،،،، کوئی نیا اتحاد جنم لے گا؟،،،، اور کیا جنوبی ایشیا کی نفرت انگیز سرحدوں پر امن کے دروازے کھلیں گے؟
یہ کہانی ابھی مکمل نہیں ہوئی۔۔۔۔۔
یہ وہ ناول ہے جس کا ہر نیا باب دنیا کے اخباروں،،،، عالمی اجلاسوں،،، اور میدانِ جنگ میں لکھا جا رہا ہے۔۔۔ کردار بدلتے ہیں۔۔۔، مناظر تبدیل ہوتے ہیں،،،، مگر ایک حقیقت واضح ہے،،،،،، پاکستان اب تاریخ کا تماشائی نہیں۔۔۔۔ بلکہ اس کا مرکزی کردار ہے۔۔۔۔۔ اور جب کردار مضبوط، عزم اٹل اور نظریہ روشن ہو۔۔۔، تو کہانی کا اختتام ہمیشہ فتح کی صورت میں ہوتا ہے۔
