عطا اللہ تارڑ: عمران خان کو 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس میں سزا ملی، ضمانت بریت نہیں
عطا اللہ تارڑ کا بڑا دعویٰ: "ضمانت کا مطلب بریت نہیں، عمران خان میگا کرپشن کیس میں ملوث ہیں”
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان کو عدالت سے ملنے والی ضمانت پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ضمانت کا مطلب بریت نہیں ہوتا، اور عمران خان تاحال 190 ملین پاؤنڈ کے میگا کرپشن کیس میں ملوث ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کیس پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے مالیاتی اسکینڈلز میں سے ایک ہے، جس کے حقائق اور شواہد ناقابل تردید ہیں۔
190 ملین پاؤنڈ کا معاملہ: ایک نظر
یہ کیس اُس وقت منظرِ عام پر آیا جب انکشاف ہوا کہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (NCA) نے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے 190 ملین پاؤنڈ کی رقم ضبط کی، جسے قانونی طور پر حکومتِ پاکستان کو منتقل کیا جانا تھا۔ تاہم، وفاقی حکومت کی جانب سے مبینہ طور پر یہ رقم "القادر یونیورسٹی ٹرسٹ” کے معاہدے کے تحت ملک ریاض کو واپس کر دی گئی، اور الزام لگایا گیا کہ اس کے عوض عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو اربوں روپے مالیت کی زمین عطیہ کی گئی۔
عطا اللہ تارڑ کا الزام: “یہ تاریخ کا سب سے بڑا مالیاتی فراڈ ہے”
عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ:
"190 ملین پاؤنڈ کا معاملہ تاریخ کا میگا کرپشن کیس ہے۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان کو شفاف عدالتی کارروائی کے بعد 14 سال قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے بند لفافے کے ذریعے کابینہ سے منظوری حاصل کی، جس میں نہ کوئی بحث ہوئی اور نہ ہی کسی وزیر کی رائے لی گئی۔”
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی نے عدالت میں کوئی بھی ایسا ثبوت پیش نہیں کیا جس سے یہ ثابت ہوتا کہ مذکورہ رقم کے عوض ملک ریاض کو کوئی قانونی سہولت فراہم کی گئی تھی۔
“ضمانت بریت نہیں ہوتی”: عطا تارڑ کی قانونی وضاحت
عطا اللہ تارڑ نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ضمانت کے فیصلے کو عوام میں بریت کے طور پر پیش کر رہے ہیں، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ:
عدالت کا ضمانت دینا صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ ملزم کو ٹرائل مکمل ہونے تک قید میں رکھنا ضروری نہیں۔
ضمانت کا فیصلہ مقدمے کے میرٹ پر اثر انداز نہیں ہوتا۔
پی ٹی آئی کے کئی رہنما ماضی میں ضمانت پر رہتے ہوئے بھی سزا پا چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ "عدالت نے صرف ضمانت دی ہے، جرم سے بری نہیں کیا۔ ابھی تو شفاف ٹرائل ہونا باقی ہے، اور اس ٹرائل میں حقائق قوم کے سامنے آئیں گے۔”
“اسلامی ٹچ” اور “مذہب کارڈ” کا استعمال
وفاقی وزیر نے پی ٹی آئی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب ان سے ثبوت مانگے گئے تو انہوں نے جواب دینے کے بجائے مذہب کارڈ استعمال کیا۔ ان کے بقول:
"یہ لوگ ریاستِ مدینہ کا بیانیہ لے کر آئے، لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ پیسے کہاں سے آئے، اور کس مقصد کے لیے ملک ریاض کو واپس کیے گئے، تو کوئی جواب نہ دیا گیا۔”
انہوں نے الزام لگایا کہ القادر یونیورسٹی کے نام پر بنائے گئے ٹرسٹ کا مقصد صرف بدعنوانی کو چھپانا تھا، اور اس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ کا براہ راست کردار ہے۔
القادر ٹرسٹ کیس: عمران خان اور اہلیہ بھی شاملِ تفتیش
القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی دونوں کو شاملِ تفتیش کیا گیا ہے۔ نیب اور دیگر تحقیقاتی ادارے اس بات کی چھان بین کر رہے ہیں کہ:
- ٹرسٹ کو زمین کیسے الاٹ کی گئی؟
- ملک ریاض کے ساتھ کیا ڈیل ہوئی؟
- کیا اس کے عوض کوئی مالی فائدہ حاصل کیا گیا؟
حکومتی مؤقف کے مطابق یہ سب کچھ "بند لفافے” میں طے پایا، اور وفاقی کابینہ کو اندھیرے میں رکھا گیا۔
پی ٹی آئی کا مؤقف: "سیاسی انتقام”
پی ٹی آئی کی جانب سے حکومتی الزامات کو "سیاسی انتقام” قرار دیا جا رہا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ:
- عمران خان کو سیاسی میدان سے باہر کرنے کے لیے جھوٹے مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔
- عدالت سے ضمانت کا فیصلہ دراصل حکومتی بیانیے کی نفی ہے۔
- القادر ٹرسٹ ایک خیراتی منصوبہ ہے، جس کا مقصد تعلیمی بہتری تھا۔
تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ اگر ٹرسٹ نیک نیتی سے بنایا گیا ہوتا تو کابینہ کی منظوری شفاف انداز میں ہوتی، اور اس کے بدلے زمین جیسے مالی فوائد نہ ملتے۔
قانونی ماہرین کی رائے
قانونی ماہرین کے مطابق:
ضمانت کا مقصد صرف ملزم کو ٹرائل کے دوران قید سے بچانا ہوتا ہے، جرم سے بری کرنا نہیں۔
نیب قوانین کے تحت اگر کسی بھی عوامی عہدے پر فائز شخص نے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا، تو اس پر مقدمہ بنانا اور سزا دینا قانونی تقاضا ہے۔
عدالتیں شواہد اور گواہیوں کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہیں، اس لیے الزامات کا دفاع صرف بیانات سے نہیں، بلکہ ثبوتوں سے کرنا ہوگا۔
کیا ضمانت عمران خان کے لیے ریلیف ہے؟
اگرچہ ضمانت کا فیصلہ وقتی طور پر عمران خان کے لیے ایک ریلیف ہے، لیکن یہ ان کے مقدمے کا اختتام نہیں۔ انہیں اب بھی:
- عدالت میں اپنی صفائی پیش کرنی ہے،.
- شواہد فراہم کرنے ہیں،
اور یہ ثابت کرنا ہے کہ انہوں نے قومی خزانے کو نقصان نہیں پہنچایا۔
اگر وہ یہ سب کچھ عدالت میں ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو انہیں مکمل بریت بھی مل سکتی ہے۔ لیکن اگر وہ ناکام ہوئے، تو سزا برقرار رہ سکتی ہے۔
نتیجہ: آگے کیا ہوگا؟
عطا اللہ تارڑ کی پریس کانفرنس نے واضح کر دیا ہے کہ حکومت اس معاملے کو صرف قانونی نہیں، بلکہ عوامی سطح پر بھی لڑے گی۔ ان کا مقصد یہ پیغام دینا ہے کہ:
- احتساب سب کے لیے برابر ہے،
- کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں،
- اور ریاستی وسائل کے غلط استعمال پر سخت سزا دی جائے گی۔
دوسری جانب، پی ٹی آئی عدالتوں سے انصاف کی امید لگائے بیٹھی ہے، اور اسے سیاسی بقا کا ایک اہم مرحلہ سمجھ رہی ہے۔
خلاصہ
وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ:
- عمران خان کو ملنے والی ضمانت ان کی بے گناہی کا ثبوت نہیں،
- 190 ملین پاؤنڈ کا کرپشن کیس پاکستان کی تاریخ کا سنگین ترین مالیاتی اسکینڈل ہے،
- اور اس کیس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ملکی سیاست اور قانون کی سمت طے کرے گا۔
READ MORE FAQs.
190 ملین پاؤنڈ میگا کرپشن کیس کیا ہے؟
یہ کیس اس وقت سامنے آیا جب اربوں روپے برطانیہ سے پاکستان واپس آنے تھے لیکن وہ ایک پراپرٹی ٹائیکون کو دے دیے گئے۔
کیا عمران خان کو اس کیس میں سزا ہوئی؟
جی ہاں، عدالت نے انہیں 14 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
عطا اللہ تارڑ کا اس کیس میں کیا موقف ہے؟
ان کے مطابق یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا کرپشن اسکینڈل ہے اور عمران خان براہ راست اس میں ملوث ہیں۔

