پارلیمنٹ میں 27ویں آئینی ترمیم پر حتمی مشاورت — آئینی عدالت کے قیام کی راہ ہموار
27ویں آئینی ترمیم پر مشاورت مکمل — آئینی عدالت کے قیام کی راہ ہموار
پارلیمنٹ ہاؤس میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مشترکہ کمیٹیوں کا اہم اجلاس جاری ہے، جس میں 27ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ مسودے پر تفصیلی غور و خوض کے بعد آئینی عدالت کے قیام سے متعلق مشاورت مکمل کرلی گئی۔
یہ اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس کے کمیٹی روم نمبر 5 میں ہوا، جس کی صدارت پیپلز پارٹی کے سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کی۔
اجلاس کی تفصیلات
اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیر مملکت برائے ریلوے و خزانہ بلال اظہر کیانی، چیئرمین سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے قانون فاروق ایچ نائیک، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، اور پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر شریک ہوئے۔
اس کے علاوہ منظور کاکڑ، ہدایت اللہ، بشیر احمد ورک، علی حیدر گیلانی، طاہر خلیل سندھو، سائرہ افضل تارڑ اور سینیٹر شہادت اعوان بھی اجلاس میں موجود تھے۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم قومی اتفاق رائے کے ساتھ مکمل کی جائے گی۔ ان کے مطابق "تمام جماعتوں کی رائے کو سنا جائے گا اور اکثریت کے فیصلے کے مطابق ترمیم کو حتمی شکل دی جائے گی۔”
اجلاس کے دوران اہم پیش رفت
اجلاس کے دوران آئینی عدالت کے قیام پر مشاورت مکمل کرلی گئی۔
ذرائع کے مطابق 27ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ ڈرافٹ میں عدالتی اصلاحات، آرٹیکل 243 اور آرٹیکل 200 میں ترامیم، اور آئینی عدالت کے ڈھانچے سے متعلق سفارشات شامل ہیں۔
مشترکہ پارلیمانی کمیٹی آج شام تک اس ڈرافٹ کو حتمی شکل دے کر ایوان میں پیش کرے گی۔
سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ “ہماری کوشش ہے کہ شام پانچ بجے تک تمام شقوں پر اتفاقِ رائے سے فیصلہ کیا جائے تاکہ آئینی عدالت کے قیام کے حوالے سے کوئی ابہام باقی نہ رہے۔”
سیاسی جماعتوں کی شرکت اور بائیکاٹ
اجلاس میں جہاں حکومت اور اتحادی جماعتوں کے اراکین کی مکمل شرکت رہی، وہیں اپوزیشن جماعتیں غیر حاضر رہیں۔
پاکستان تحریک انصاف (PTI)، جمعیت علمائے اسلام (JUI-F)، مجلس وحدت المسلمین (MWM) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (PkMAP) کے نمائندگان اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔
جے یو آئی (ف) نے گزشتہ روز اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا، جبکہ مسلم لیگ (ض) کے اعجاز الحق نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔
ذرائع کے مطابق اپوزیشن کی غیر موجودگی کے باوجود حکومت ترمیمی عمل کو جلد مکمل کرنے کے حق میں ہے۔
آئینی عدالت کا قیام — نیا عدالتی نظام
27ویں آئینی ترمیم کے تحت مجوزہ “آئینی عدالت” ایک الگ ادارہ ہوگی جو آئین کی تشریح اور بنیادی حقوق کے تحفظ سے متعلق مقدمات سنے گی۔
اس عدالت کے قیام کا مقصد سپریم کورٹ پر مقدمات کا بوجھ کم کرنا اور آئینی معاملات کے فوری فیصلے کو یقینی بنانا ہے۔
آئینی عدالت میں چیف جسٹس اور چار جج شامل ہوں گے، جو آئینی ماہرین میں سے منتخب کیے جائیں گے۔
ذرائع کے مطابق ان ججوں کی تقرری کے طریقہ کار پر بھی مشاورت جاری ہے، تاکہ عدالتی آزادی اور شفافیت برقرار رہے۔
فاروق نائیک کا موقف
اجلاس کے دوران چیئرمین کمیٹی فاروق ایچ نائیک نے کہا:

“ہم تمام جماعتوں کی آراء کو سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔ ن لیگ، ایم کیو ایم اور دیگر اتحادیوں کی تجاویز کو شامل کیا جائے گا۔ اکثریتی رائے کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا اور تمام فیصلے ایوان میں پیش ہوں گے۔”
انہوں نے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم ملک کے آئینی ڈھانچے کو مضبوط کرے گی اور عدالتی نظام میں توازن پیدا کرے گی۔
آئینی ترامیم کا تاریخی پس منظر
پاکستان میں اب تک 26 آئینی ترامیم ہو چکی ہیں۔
ہر ترمیم نے آئین میں کسی نہ کسی شعبے میں تبدیلی یا اصلاح متعارف کرائی۔
تاہم 27ویں آئینی ترمیم کو عدالتی نظام میں سب سے بڑی اصلاح سمجھا جا رہا ہے کیونکہ یہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے دائرہ کار میں بنیادی تبدیلیاں لا سکتی ہے۔
یہ ترمیم اس وقت سامنے آئی ہے جب ملک میں عدلیہ کے اختیارات، از خود نوٹس، اور عدالتی اصلاحات پر شدید بحث جاری ہے۔
ماہرین قانون کی آراء

آئینی ماہرین کے مطابق اگر آئینی عدالت قائم ہو جاتی ہے تو یہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار سے متصادم نہیں ہوگی بلکہ اسے معاونت فراہم کرے گی۔
ماہر قانون علی ظفر کے مطابق “یہ اقدام عدلیہ کی تقسیم نہیں بلکہ اصلاح ہے، جس سے آئینی معاملات میں شفافیت بڑھے گی۔”
مستقبل کی سمت
27ویں آئینی ترمیم کے بعد پارلیمنٹ میں بحث کے دوران سیاسی اختلافات سامنے آ سکتے ہیں، تاہم اتحادی حکومت پُر امید ہے کہ یہ ترمیم اتفاقِ رائے سے منظور کر لی جائے گی۔
ذرائع کے مطابق حکومت اس ترمیم کو آئندہ سیشن میں ایوان میں پیش کرے گی، اور منظوری کے بعد آئینی عدالت کے قیام کے لیے عملی اقدامات شروع کیے جائیں گے۔
سپریم کورٹ میں 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف آئینی جنگ شروع
27ویں آئینی ترمیم پاکستان کے عدالتی اور آئینی نظام میں ایک اہم سنگِ میل ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ نہ صرف عدلیہ میں شفافیت اور توازن لانے کا باعث بنے گی بلکہ عوامی سطح پر اعتماد کی فضا بھی پیدا کرے گی۔
اب نگاہیں پارلیمنٹ کے اگلے اجلاس پر ہیں جہاں اس ترمیمی ڈرافٹ کو باضابطہ طور پر پیش کیا جائے گا۔










Comments 1