کوہستان میں 28 سال بعد برفانی گلیشیئر سے لاپتا شخص نصیر الدین کی لاش برآمد، خاندان میں غم اور حیرت کی لہر
کوہستان کے علاقے لیدی ویلی میں ایک حیرت انگیز اور جذباتی واقعہ پیش آیا ہے، جہاں 28 سال قبل لاپتا ہونے والے شخص نصیر الدین کی لاش برفانی گلیشیئر سے برآمد ہوئی ہے۔ اس واقعے نے نہ صرف ان کے خاندان بلکہ مقامی آبادی کو بھی جذباتی طور پر جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
28 سال بعد لاش کی دریافت
یہ واقعہ یکم اگست 2025 کو پیش آیا جب مقامی چرواہے عمر خان اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ مال مویشیوں کے ساتھ حسب معمول لیدی ویلی کی طرف گئے۔ سیر کے دوران ان کی نظر ایک انسانی لاش پر پڑی جو حیرت انگیز طور پر بالکل صحیح سلامت تھی، یہاں تک کہ کپڑے بھی مکمل طور پر محفوظ تھے۔

عمر خان نے بتایا کہ لاش کے قریب سے ایک شناختی کارڈ ملا جس پر نام ’نصیر الدین‘ درج تھا۔ اسی شناختی کارڈ سے پتہ چلا کہ یہ وہی نصیر الدین ہے جو 1997 میں گھوڑے سمیت گلیشیئر کی دراڑ میں گر کر لاپتا ہو گئے تھے۔
لاپتا ہونے کا پس منظر
نصیر الدین کوہستان کے علاقے پالس سے تعلق رکھتے تھے۔ 1997 میں وہ اپنے چھوٹے بھائی کثیر الدین کے ہمراہ سپیٹ ویلی سے واپس الائی جا رہے تھے جہاں انہوں نے گھوڑے خریدے تھے اور انہیں تجارتی مقاصد کے لیے منتقل کرنا تھا۔ ان کی واپسی کے دوران برف سے ڈھکے خطرناک پہاڑی راستوں سے گزرتے ہوئے ایک مقام پر نصیر الدین گھوڑے سمیت گلیشیئر میں گر گئے۔

کثیر الدین کے مطابق اس دن فائرنگ کی آوازیں بھی سنائی دی تھیں جس کے بعد نصیر الدین نے ایک برفانی غار میں پناہ لینے کی کوشش کی، مگر پھر وہ لاپتا ہو گئے۔ کثیر الدین نے کئی دن تک مقامی افراد کے ہمراہ تلاش جاری رکھی مگر کامیابی نہ ملی۔ بعد ازاں اہل خانہ نے گلیشیئر پر ہی ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کر دی تھی۔
خاندانی دشمنی کی کہانی
نصیر الدین کا خاندان اُس وقت ایک شدید خاندانی دشمنی کا شکار تھا۔ ان کے ایک بھائی گردیز کو مبینہ طور پر غیرت کے نام پر قتل کیا گیا تھا، جس کے بعد ان کے والد بہرام نے خود بدلہ لینے کا اعلان کیا۔ نتیجتاً مخالف فریق نے بہرام اور ان کے دونوں بیٹوں، نصیر الدین اور کثیر الدین، کے خلاف مقدمات درج کروا دیے تھے۔ اس خوف سے دونوں بھائی روپوش ہو گئے۔
پولیس کے ریٹائرڈ اہلکار عبدالعزیز کے مطابق اُس وقت علاقے میں ذرائع مواصلات نہ ہونے کے برابر تھے اور اکثر ایسے واقعات پولیس کو رپورٹ نہیں کیے جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ نصیر الدین کی گمشدگی کو بھی باضابطہ طور پر ریکارڈ پر نہیں لایا گیا۔
لاش کی شناخت اور قانونی کارروائی
28 سال بعد جب لاش برآمد ہوئی تو پولیس نے فوری طور پر علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور لاش کو محفوظ کر لیا گیا۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ لاش کی حتمی شناخت اور قانونی کارروائی کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کروایا جائے گا۔ تاہم اہل خانہ اور مقامی افراد کی طرف سے لاش کی شناخت پہلے ہی کر لی گئی ہے، جو شناختی کارڈ اور دیگر ذاتی اشیاء سے ممکن ہوئی۔

خاندان کا ردعمل
نصیر الدین کے اہل خانہ اس دریافت پر جذباتی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ ان کے بیٹے، جو اس وقت چھوٹے تھے، اب جوان ہو چکے ہیں۔ بیوہ اور دیگر اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے 28 سال تک نصیر الدین کی تلاش جاری رکھی اور کبھی امید کا دامن نہیں چھوڑا۔
کثیر الدین، جو اس واقعے کے عینی شاہد ہیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ جب وہ اپنے بھائی کی لاش لینے لیدی ویلی پہنچے تو دل پر گراں گزر رہا تھا کہ جس بھائی کو وہ برسوں پہلے گلیشیئر میں کھو بیٹھے تھے، اب اسی گلیشیئر نے انہیں واپس کر دیا ہے۔
ماہرین کی رائے
ماہرین کا کہنا ہے کہ برفانی گلیشیئرز کی ساخت اور درجہ حرارت لاش کو محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نصیر الدین کی لاش، اگرچہ دہائیوں پرانی ہے، مگر حیرت انگیز طور پر محفوظ حالت میں ملی ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق یہ واقعہ اس جانب بھی اشارہ کرتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گلیشیئرز کے پگھلنے کا عمل تیز ہو رہا ہے، جس سے مستقبل میں مزید ایسے پرانے راز افشا ہو سکتے ہیں۔
مقامی آبادی میں جذباتی لہر
اس واقعے نے کوہستان میں ایک جذباتی فضا قائم کر دی ہے۔ علاقے کے بزرگوں اور نوجوانوں کی بڑی تعداد نصیر الدین کے جنازے میں شرکت کے لیے تیار ہو رہی ہے۔ مقامی مسجدوں میں ان کے ایصالِ ثواب کے لیے دعائیں مانگی جا رہی ہیں۔
نصیر الدین کی لاش کی برآمدگی ایک انسانی کہانی ہے جو وقت، موسم، اور قدرتی حالات کی گہرائیوں میں دفن ہو گئی تھی، مگر 28 سال بعد ایک گلیشیئر نے اس راز کو بے نقاب کر دیا۔ یہ واقعہ نہ صرف ایک خاندان کے لیے جذباتی بندش کا سبب ہے بلکہ ایک علاقے کی اجتماعی یادداشت کا بھی اہم باب بن چکا ہے۔