انسداد دہشت گردی عدالت راولپنڈی کا بڑا فیصلہ، 9 مئی جی ایچ کیو حملہ کیس میں عمران خان کی ٹرائل جاری رکھنے کا حکم
راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی و سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے دائر کی گئی درخواست، جس میں 9 مئی جی ایچ کیو حملہ کیس میں ٹرائل روکنے کی استدعا کی گئی تھی، مسترد کر دی ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ ویڈیو لنک ٹرائل سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرتے ہوئے ٹرائل روکنے کی کوئی قانونی بنیاد موجود نہیں ہے۔
عدالت نے کیس کی آئندہ سماعت 30 ستمبر 2025 تک ملتوی کر دی، جب کہ آج کی سماعت کے دوران استغاثہ کے تین اہم گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔
آج کی سماعت: گواہان کے بیانات اور پراسیکیوشن کو نوٹس
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کی زیرِ صدارت آج ہونے والی سماعت میں پراسیکیوشن کے تین گواہان نے اپنے بیانات قلم بند کروائے۔ ان میں:
- ڈی ایس پی اکبر عباس
- انسپکٹر عصمت کمال
- انسپکٹر تہذیب الحسن
شامل تھے۔ عدالت نے مزید کارروائی کے لیے پراسیکیوشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 8 گواہان کو دوبارہ طلب کرنے سے متعلق دائر ایک علیحدہ درخواست پر بھی رائے طلب کی ہے۔ یہ درخواست استغاثہ کی جانب سے دائر کی گئی تھی تاکہ وہ گواہان، جن کے بیانات کسی وجہ سے مکمل ریکارڈ نہیں ہو سکے، دوبارہ عدالت میں طلب کیے جا سکیں۔
عمران خان کی قانونی ٹیم کی درخواست — ویڈیو لنک ٹرائل پر اعتراض
عمران خان کے وکلاء نے گزشتہ سماعت پر عدالت میں ایک درخواست دائر کی تھی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ:
"لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں ویڈیو لنک کے ذریعے ٹرائل کے خلاف درخواست زیر سماعت ہے، لہٰذا عدالت موجودہ مقدمے کی کارروائی کو مؤخر کرے جب تک ہائی کورٹ کا فیصلہ نہیں آتا۔”
تاہم انسداد دہشت گردی عدالت نے اس مؤقف کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ٹرائل جاری رہے گا، اور ویڈیو لنک کی موجودگی یا عدم موجودگی فی الحال عدالتی کارروائی کو روکنے کی وجہ نہیں بن سکتی۔
عدالت نے قرار دیا:
"ملزم کی غیر موجودگی میں بھی قانونی تقاضوں کے مطابق ٹرائل جاری رہ سکتا ہے، اور یہ عدالت قانون کی روشنی میں آزادانہ فیصلے کرنے کی مجاز ہے۔”
9 مئی کے واقعات — کیس کا پس منظر
یاد رہے کہ 9 مئی 2023 کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں شدید احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے تھے، جن میں بعض مقامات پر سرکاری و عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ ان واقعات کو ملکی تاریخ میں "یوم سیاہ” کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
راولپنڈی میں واقع جنرل ہیڈکوارٹر (جی ایچ کیو) کی حدود میں مظاہرین کی دراندازی اور توڑ پھوڑ کے بعد، پاکستان آرمی اور حکومت کی جانب سے شدید ردِ عمل آیا، اور ان واقعات کی تحقیقات کے بعد متعدد افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔
ان مقدمات میں عمران خان کو بھی نامزد کیا گیا، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے عوام کو اکسانے اور حملے کی منصوبہ بندی میں مبینہ طور پر معاونت فراہم کی۔
سیاسی تناظر — عمران خان کے خلاف مقدمات کی کثرت
یہ مقدمہ عمران خان کے خلاف جاری کئی قانونی محاذوں میں سے ایک ہے۔ 2023 سے اب تک سابق وزیر اعظم کے خلاف:
- توشہ خانہ ریفرنس
- غیر ملکی فنڈنگ کیس
- سائفر کیس
- اور 9 مئی واقعات سے جڑے کئی مقدمات
زیر التواء ہیں یا فیصل ہو چکے ہیں۔ پی ٹی آئی اور عمران خان ان مقدمات کو "سیاسی انتقام” قرار دیتے ہیں، جب کہ حکومت اور عدالتی ادارے ان کارروائیوں کو قانون کے مطابق قرار دیتے ہیں۔
قانونی ماہرین کی رائے — ٹرائل روکنے کی کوشش کیوں ناکام ہوئی؟
معروف آئینی و قانونی ماہر سید سلمان علی کے مطابق:
"عدالت نے جو فیصلہ دیا ہے وہ موجودہ قانون اور عدالتی نظائر کے مطابق ہے۔ ویڈیو لنک پر ٹرائل سے متعلق ہائی کورٹ کا فیصلہ ابھی آیا نہیں، لہٰذا انسداد دہشت گردی عدالت ٹرائل روکنے کی پابند نہیں تھی۔”
انہوں نے مزید کہا کہ:
"اگر عمران خان کی ٹیم کو ہائی کورٹ سے اسٹے آرڈر مل جاتا تو صورتحال مختلف ہو سکتی تھی، لیکن جب تک کوئی اعلیٰ عدالتی حکم نہ ہو، ذیلی عدالتیں کارروائی روکنے کی پابند نہیں ہوتیں۔”
گواہان کے بیانات — مقدمے میں اہم موڑ؟
استغاثہ کی جانب سے آج پیش کیے گئے تین گواہان کے بیانات مقدمے میں اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق:
- ڈی ایس پی اکبر عباس نے واقعے کے دوران پیش آنے والے حالات و واقعات کا تفصیلی بیان دیا۔
- انسپکٹر عصمت کمال نے مظاہرین کی شناخت اور ان کے اقدامات کے بارے میں عدالت کو آگاہ کیا۔
- انسپکٹر تہذیب الحسن نے جائے وقوعہ کی تصاویر، ویڈیوز اور دیگر شواہد کا حوالہ دیا۔
- ان بیانات کو کیس کی بنیاد بنانے میں اہم قرار دیا جا رہا ہے، خصوصاً جب دفاع ان کے بیانات پر جرح کرے گا۔
عمران خان کی قانونی حکمت عملی — کیا اگلا قدم اپیل ہوگا؟
عمران خان کی قانونی ٹیم کا کہنا ہے کہ وہ عدالت کے آج کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق، ویڈیو لنک ٹرائل بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اور ایک سیاسی رہنما کو دفاع کے مناسب مواقع فراہم کیے بغیر سزا کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پی ٹی آئی کی قانونی کمیٹی کے رکن بابر اعوان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا:
"ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں، لیکن اگر انصاف کے تقاضے پورے نہ ہوں تو اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا جائے گا۔ یہ مقدمہ صرف عمران خان کا نہیں، انصاف کے نظام کا بھی امتحان ہے۔”
عوامی ردِ عمل اور سیاسی فضاء
عدالت کے فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بار پھر #ImranKhanTrial اور #May9Truth جیسے ہیش ٹیگز ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے حامی اسے "سیاسی انتقام” قرار دے رہے ہیں، جب کہ مخالفین اس فیصلے کو "قانون کی عمل داری” کی علامت قرار دے رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، 9 مئی کے واقعات کا قانونی نتیجہ نہ صرف عمران خان کی سیاست بلکہ مستقبل کی سول ملٹری تعلقات پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔
قانونی اور سیاسی داؤ پیچ کا سنگین مرحلہ
راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت کا فیصلہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ موجودہ عدالتی نظام کسی دباؤ کے بغیر اپنے دائرہ کار میں کام کر رہا ہے۔ عمران خان کے خلاف جاری مقدمات میں سے یہ ایک اہم کیس ہے، جس میں قانون، سیاست، اور ریاستی اداروں کی ساکھ تینوں داؤ پر ہیں۔
اگرچہ عدالت نے ٹرائل روکنے کی درخواست مسترد کر دی ہے، مگر آئندہ سماعتوں میں گواہان کے بیانات، جرح، اور ممکنہ شواہد مقدمے کا رخ متعین کریں گے۔ اب نظریں 30 ستمبر کی آئندہ سماعت پر لگی ہیں، جہاں کیس میں ممکنہ پیش رفت متوقع ہے۔
