اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق جہانگیری حکمنامہ کے تحت عدالتی امور سے روک دیے گئے تھے۔ یہ فیصلہ ایک مبینہ جعلی ڈگری کے معاملے سے جڑا ہوا تھا، تاہم سپریم کورٹ نے اس حکمنامے کو معطل کر کے ایک نئی قانونی بحث کو جنم دیا ہے
سپریم کورٹ کا بینچ اور کارروائی
سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل تھے۔
- سماعت کے دوران جسٹس طارق جہانگیری سمیت اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز عدالت میں موجود تھے۔
- سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ "کسی جج کو عدالتی کام سے نہیں روکا جا سکتا”، یہ ریمارکس بعد ازاں فیصلے کی بنیاد بنے۔
مبینہ جعلی ڈگری کا تنازع
سماعت کے موقع پر صحافیوں نے سوال اٹھایا کہ کراچی یونیورسٹی نے جسٹس طارق جہانگیری کی ڈگری منسوخ کی ہے۔
- جسٹس جہانگیری نے جواب دیا: “حیرت ہے کہ 34 سال بعد ڈگری منسوخ کی جا رہی ہے، دنیا کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔”
- یہ معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے۔
- اس تنازع نے جسٹس طارق جہانگیری حکمنامہ کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
وکلا کے دلائل
جسٹس طارق جہانگیری کے وکیل منیر اے ملک نے مؤقف اختیار کیا:
- عدالت کے حکم نے انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے۔
- کسی جج کے خلاف رٹ دائر نہیں کی جا سکتی۔
- یہ فیصلہ یکطرفہ طور پر دیا گیا اور اس پر اعتراضات بھی ابھی باقی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ نے جسٹس طارق جہانگیری حکمنامہ معطل نہ کیا تو غلط پیغام جائے گا۔
سپریم کورٹ کے ریمارکس
جسٹس جمال خان مندوخیل نے دوران سماعت کہا:
- "سپریم کورٹ پہلے ہی فیصلہ دے چکی ہے کہ جج کو عدالتی کام سے نہیں روکا جا سکتا۔”
- "یہ کیس ہائی کورٹ کے عبوری حکم تک محدود ہے۔”
بینچ نے فریقین کو تیاری کے ساتھ آنے کی ہدایت دی اور اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کیے۔

بار کونسلز کی درخواستیں
اسلام آباد بار کونسل اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔
- وکلاء کا کہنا تھا کہ اس فیصلے نے عدلیہ کی ساکھ پر سوال اٹھائے ہیں۔
- ان کا مؤقف تھا کہ جسٹس طارق جہانگیری حکمنامہ ملکی عدالتی تاریخ میں منفرد اور غیر معمولی ہے۔
قانونی ماہرین کی آراء
کئی ماہرین قانون کے مطابق:
- یہ پہلا موقع ہے کہ ہائی کورٹ کے جج کو اپنے ہی ساتھی ججوں نے عدالتی امور سے روکا۔
- اس سے پہلے جسٹس سجاد علی شاہ کیس میں بھی عدالتی کام روکنے کا حکم دیا گیا تھا لیکن اس کے حقائق مختلف تھے۔
- سپریم کورٹ کے فیصلے نے واضح کیا ہے کہ عدلیہ کے اندرونی نظم و ضبط کے باوجود کسی جج کو عدالتی کام سے روکنا غیر قانونی ہے۔
مستقبل کا منظرنامہ
یہ کیس مستقبل میں عدلیہ کے اختیارات، ججز کے کنڈکٹ اور آئینی حدود پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
- ماہرین کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ عدلیہ کی آزادی کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے۔
- تاہم، جعلی ڈگری کے الزام پر مزید تحقیقات ہونا باقی ہیں۔
- آئندہ سماعت میں فریقین کے مزید دلائل سامنے آئیں گے اور جسٹس طارق جہانگیری حکمنامہ کیس ملک کی عدالتی تاریخ میں اہم حوالہ بن جائے گا۔
جامعہ کراچی ڈگری منسوخی کیس میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری کالعدم
سپریم کورٹ نے جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا حکم نامہ معطل کر کے عدلیہ کی آزادی اور ججز کے اختیارات کے حوالے سے اہم پیغام دیا ہے۔
یہ فیصلہ نہ صرف موجودہ کیس بلکہ مستقبل کے عدالتی فیصلوں کے لیے بھی سنگ میل ثابت ہوگا۔