پشاور ہائیکورٹ نے پیکا ایکٹ کے تحت صحافیوں کو دیے جانے والے نوٹسز معطل کر دیے۔ یہ فیصلہ اس درخواست پر آیا جو صحافیوں کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔ درخواست گزاروں کا مؤقف تھا کہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے انہیں نوٹسز جاری کیے مگر ان میں جرم کی وضاحت نہیں کی گئی۔
عدالت میں سماعت
پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز انور اور جسٹس خورشید اقبال نے درخواست پر سماعت کی۔ عدالت نے نوٹسز کو فوری طور پر معطل کر دیا اور ایف آئی اے سمیت دیگر فریقین کو وضاحت پیش کرنے کے لیے نوٹس جاری کیے۔ اگلی سماعت پر فریقین سے جواب طلب کیا گیا ہے۔

وکیل کا مؤقف
درخواست گزار صحافیوں کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے نے پیکا ایکٹ کے تحت نوٹس بھیجے ہیں لیکن ان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کس جرم کی بنیاد پر کارروائی کی جا رہی ہے۔ وکیل کے مطابق اس سے قبل بھی پشاور ہائیکورٹ ایسے نوٹسز کو معطل کر چکی ہے اور عدالتی احکامات کی مثالیں موجود ہیں۔
پیکا ایکٹ کیا ہے؟
پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) 2016 کو ملک میں آن لائن جرائم سے نمٹنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت سائبر کرائم، سوشل میڈیا پر ہراسانی، جعلی خبریں پھیلانے اور ڈیجیٹل دھوکا دہی جیسے معاملات کو دیکھا جاتا ہے۔ تاہم وقتاً فوقتاً اس قانون کو صحافت اور اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغن کے طور پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
صحافیوں کے خدشات
کئی صحافی تنظیموں اور پریس کلبز کا مؤقف ہے کہ پیکا ایکٹ کو صحافیوں اور میڈیا پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق اس قانون کے تحت جاری ہونے والے نوٹسز اکثر مبہم اور غیر واضح ہوتے ہیں، جس سے صحافی برادری میں تشویش بڑھتی ہے۔
عدالت کا مؤقف
پشاور ہائیکورٹ نے کہا کہ جب تک فریقین اپنی وضاحت پیش نہیں کرتے، ان نوٹسز پر عملدرآمد معطل رہے گا۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ اسے معلوم ہو کہ اس پر کس جرم کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
ماضی کے عدالتی فیصلے
اس سے قبل بھی مختلف ہائی کورٹس میں پیکا ایکٹ کے تحت جاری نوٹسز اور مقدمات کو چیلنج کیا جا چکا ہے۔ کئی مواقع پر عدالتوں نے قرار دیا کہ اس قانون کو شفافیت اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق استعمال کیا جانا چاہیے۔
میڈیا کی آزادی اور پیکا ایکٹ
یہ معاملہ ایک بار پھر اس بحث کو زندہ کرتا ہے کہ کیا پیکا ایکٹ کا استعمال میڈیا کی آزادی کو محدود کرنے کے لیے ہو رہا ہے؟ ماہرین قانون اور میڈیا تنظیموں کا کہنا ہے کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس قانون میں ترامیم کی جائیں تاکہ یہ صرف سائبر کرائم کے خلاف استعمال ہو، نہ کہ صحافیوں کو دبانے کے لیے۔
ماہرین کی آراء
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالتوں کا کردار یہاں نہایت اہم ہے۔ اگر عدلیہ نوٹسز کے غلط استعمال کو روکتی ہے تو یہ صحافیوں کے لیے ایک حفاظتی دیوار بن سکتی ہے۔ تاہم حکومت کو بھی چاہیے کہ اس قانون میں ایسی شفاف ترامیم کرے جو بنیادی انسانی حقوق کے مطابق ہوں۔
عدالت نے پیکا ایکٹ کے تحت ایمان مزاری اور ان کے شوہر کو طلب کرلیا
پشاور ہائیکورٹ کے حالیہ فیصلے نے ایک بار پھر پیکا ایکٹ کے نفاذ اور اس کے استعمال پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ فیصلہ نہ صرف صحافیوں کے لیے ریلیف ہے بلکہ آزادیٔ اظہار کی جدوجہد میں بھی ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوسکتا ہے۔