مٹی کے تیل کی قیمت میں 5 روپے 1 پیسے اضافہ – نئی قیمت 184.97 روپے فی لیٹر مقرر
پاکستان میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اب مٹی کے تیل (Kerosene Oil) کی قیمت میں بھی 5 روپے 1 پیسہ فی لیٹر کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ وزارتِ خزانہ نے اس اضافے کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے، جس کے مطابق مٹی کے تیل کی نئی قیمت 184 روپے 97 پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے۔ اس فیصلے کا اطلاق آج یکم اکتوبر سے ہو چکا ہے۔
اس سے پہلے مٹی کے تیل کی قیمت 179 روپے 96 پیسے فی لیٹر تھی، یعنی صارفین کو اب فی لیٹر 5 روپے 1 پیسہ اضافی ادا کرنا ہوگا۔ حکومت کی جانب سے لگاتار تیسری بار پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے، جس سے مہنگائی کی نئی لہر کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
وزارت خزانہ کا نوٹیفکیشن
وزارتِ خزانہ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ یہ فیصلہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے اور ملکی مالی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تبدیلی عالمی سطح پر نرخوں کے ساتھ جڑی ہوتی ہے، اور ملکی معیشت کو مستحکم رکھنے کے لیے یہ اقدام ناگزیر تھا۔
نوٹیفکیشن کے مطابق:
- مٹی کے تیل کی نئی قیمت: 184.97 روپے فی لیٹر
- پرانے قیمت: 179.96 روپے فی لیٹر
- اضافہ: 5.01 روپے فی لیٹر
پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بھی اضافہ
خیال رہے کہ اس سے قبل رات گئے حکومت نے پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا تھا۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق:
پیٹرول کی قیمت میں 4 روپے 7 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے، جس کے بعد نئی قیمت فی لیٹر 283.38 روپے ہو گئی ہے (مفروضہ قیمت، اصل مارکیٹ ریٹ کے مطابق چیک کریں)۔
ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 4 روپے 4 پیسے فی لیٹر کا اضافہ کیا گیا ہے، اور اب نئی قیمت 303.18 روپے فی لیٹر ہو گئی ہے۔
یہ اضافہ بھی یکم اکتوبر 2025 سے نافذ العمل ہو چکا ہے۔
عوامی ردعمل: مزید مہنگائی کا خدشہ
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی عوام میں شدید بے چینی دیکھی جا رہی ہے۔ خاص طور پر کم آمدنی والے طبقے کے لیے مٹی کا تیل ایک اہم ایندھن سمجھا جاتا ہے، جو کہ کھانا پکانے، لالٹین جلانے اور دیہی علاقوں میں دیگر گھریلو ضروریات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
صارفین کے تاثرات:
لاہور کے رہائشی ایک شہری محمد سلیم کا کہنا تھا، "ہم پہلے ہی بجلی کے بلوں، آٹے، چینی اور سبزیوں کی قیمتوں سے پریشان ہیں، اب مٹی کے تیل میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ غریب آدمی جائے تو جائے کہاں؟”
کراچی کی رہائشی خاتون عائشہ بی بی نے کہا، "ہم دیہی علاقوں میں مٹی کا تیل ہی استعمال کرتے ہیں، اب یہ بھی مہنگا ہو گیا ہے، حکومت کو عوام کا خیال رکھنا چاہیے۔”
ماہرین کی رائے: مہنگائی میں مزید اضافہ متوقع
معاشی ماہرین کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا براہِ راست اثر اشیائے خورونوش، ٹرانسپورٹ، زراعت اور صنعتی پیداوار پر پڑتا ہے۔ مٹی کے تیل کی قیمت میں اضافے سے نہ صرف عام صارف متاثر ہوگا بلکہ یہ تبدیلی بالواسطہ طور پر:
- ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافے کا باعث بنے گی
- کھانے پینے کی اشیاء کی ترسیل مہنگی ہو جائے گی
- دیہی معیشت پر دباؤ بڑھے گا
- چھوٹے کاروبار جو مٹی کا تیل استعمال کرتے ہیں، ان کی لاگت بڑھے گی
حکومت کی وضاحت
حکومت کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ قیمتوں میں یہ اضافہ عارضی نوعیت کا ہے، اور جیسے ہی عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں نیچے آئیں گی، مقامی سطح پر بھی قیمتوں میں کمی کی جائے گی۔
وزارتِ خزانہ کے ترجمان کے مطابق:
"ہم عالمی منڈی کے حالات کے تحت فیصلے کرنے پر مجبور ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ صارفین پر کم سے کم بوجھ ڈالا جائے۔ سبسڈی کی گنجائش محدود ہے، اور ہمیں بجٹ خسارہ بھی کنٹرول کرنا ہے۔”
سیاسی ردعمل
اپوزیشن جماعتوں نے قیمتوں میں اس اضافے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عوام پر رحم کرے اور فوری طور پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کرے۔
ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا:
"حکومت عوام دشمن پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ مٹی کے تیل جیسی بنیادی ضرورت کی شے کی قیمت میں اضافہ ناقابل قبول ہے۔ عوام پہلے ہی مہنگائی سے پس چکے ہیں۔”
آئندہ کے امکانات
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں مستحکم نہ ہوئیں تو اگلے پندرہ دن بعد مزید اضافے کا امکان بھی موجود ہے۔ اوگرا (OGRA) ہر پندرہ دن بعد قیمتوں کا جائزہ لیتی ہے، اور قیمتوں میں ردوبدل اسی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
عوام کے لیے صبر کا امتحان
پیٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں لگاتار اضافہ عوام کے لیے ایک کڑا امتحان بن چکا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ عوامی مشکلات کا احساس کرے، شفاف پالیسی اپنائے، اور ایسے اقدامات کرے جو مہنگائی کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوں۔
جب تک حکومت اور متعلقہ ادارے مؤثر اقدامات نہیں کرتے، عام آدمی مہنگائی کے اس طوفان میں پستا رہے گا۔
آپ کیا سوچتے ہیں؟
کیا آپ اس فیصلے سے متفق ہیں؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ حکومت کے پاس واقعی کوئی اور آپشن نہیں تھا؟
کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار ضرور کریں۔
