کینسر کے علاج میں مذہبی عقائد اور روحانیت کا کردار
کینسر ایک ایسا موذی مرض ہے جو جسمانی اور ذہنی دونوں سطحوں پر مریض کو شدید متاثر کرتا ہے۔ عام طور پر اس کا علاج ریڈی ایشن، کیموتھراپی یا سرجری کے ذریعے کیا جاتا ہے، لیکن ماہرین صحت کے مطابق صرف طبی علاج ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ مریض کی ذہنی، روحانی اور جذباتی کیفیت بھی اس عمل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ حالیہ امریکی تحقیق نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ کینسر کے علاج میں مذہبی عقائد اور روحانیت پر یقین مریضوں کی صحت یابی کے سفر میں غیر معمولی مدد فراہم کرتا ہے۔
تحقیق کے اہم نتائج
امریکا کے ماونٹ سینائی ہیلتھ سسٹم کے محققین نے ایک منفرد تحقیق میں پہلی بار اس بات کی نشاندہی کی کہ کینسر کے مریض علاج کے دوران کس قسم کی روحانی گفتگو کو ترجیح دیتے ہیں۔
تحقیق میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے 11 مریض شامل تھے، جن میں عیسائیت، بدھ مت، یہودیت، اسلام اور ہندومت کے ماننے والے شامل تھے۔
یہ مریض ریڈی ایشن اور بریکی تھراپی سے گزر رہے تھے۔
نتائج کے مطابق 82 فیصد مریضوں نے کہا کہ ایمان اور مذہبی عقائد ان کے لیے سب سے زیادہ اہم ہیں اور اس کی وجہ سے ان کی ڈپریشن اور ذہنی پریشانی کم ہوئی۔
یہ واضح کرتا ہے کہ کینسر کے علاج میں مذہبی عقائد مریضوں کے ذہنی سکون اور جذباتی استحکام کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔
مذہبی عقائد اور تناؤ سے نجات
کینسر کے مریض اکثر کئی ماہ تک شدید ذہنی دباؤ اور اسٹریس کا شکار رہتے ہیں۔ ان میں سے 40 فیصد سے زیادہ مریضوں میں بعد میں پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس بھی دیکھا گیا ہے۔ لیکن جب وہ مذہب یا روحانیت سے جڑتے ہیں تو انہیں یہ بوجھ ہلکا محسوس ہوتا ہے۔
تحقیق میں مریضوں نے کہا کہ دوران علاج جب ڈاکٹر یا طبی عملہ ان سے مذہبی یا روحانی بات چیت کرتا ہے تو انہیں سکون ملتا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کینسر کے علاج میں مذہبی عقائد صرف ایک ذاتی پہلو نہیں بلکہ ایک سائنسی طور پر تسلیم شدہ سہارا بھی ہیں۔
ایمان اور کینسر کے مریض
ایمان کو اکثر ایک اندرونی طاقت کہا جاتا ہے جو مشکل وقت میں انسان کو حوصلہ دیتی ہے۔ کینسر کے مریض جب اپنے ایمان پر بھروسہ کرتے ہیں تو انہیں علاج کے مشکل مراحل میں بھی امید ملتی ہے۔
ایمان کی وجہ سے وہ درد اور تکلیف کو زیادہ بہتر طریقے سے برداشت کرتے ہیں۔
ان میں ڈپریشن اور تنہائی کے احساسات کم ہو جاتے ہیں۔
ایمان انہیں یہ یقین دلاتا ہے کہ ان کی تکالیف کا کوئی مقصد ہے اور وہ تنہا نہیں ہیں۔
یہ تمام عوامل اس بات کو مزید تقویت دیتے ہیں کہ کینسر کے علاج میں مذہبی عقائد مریضوں کو ذہنی اور جسمانی طور پر مضبوط بناتے ہیں۔
روحانیت اور جسمانی صحت کا تعلق
ماہرین صحت کے مطابق جسمانی اور روحانی صحت آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ جب مریض جذباتی طور پر بہتر محسوس کرتا ہے تو اس کا اثر براہ راست اس کے جسم پر بھی پڑتا ہے۔
دل کی دھڑکن معمول پر آ جاتی ہے۔
بلڈ پریشر بہتر ہوتا ہے۔
نیند کا معیار اچھا ہو جاتا ہے۔
قوتِ مدافعت مضبوط ہوتی ہے۔
یہ تمام عوامل کینسر جیسے مرض کے علاج میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جدید طبی ماہرین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ کینسر کے علاج میں مذہبی عقائد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ڈاکٹرز کے لیے نئی ہدایات
اس تحقیق کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ طبی عملے کو مریضوں کے ساتھ مذہبی اور روحانی گفتگو کے لیے تربیت دی جانی چاہیے۔ اس کے لیے خصوصی پروٹوکولز تیار کیے جا رہے ہیں تاکہ ڈاکٹرز مریضوں سے ان کے عقائد پر بات کر سکیں اور انہیں بہتر جذباتی سہارا فراہم کریں۔
یہ قدم نہ صرف مریضوں کے علاج کو زیادہ مؤثر بنائے گا بلکہ ان کے اور ڈاکٹرز کے درمیان اعتماد کو بھی مضبوط کرے گا۔ اس طرح کینسر کے علاج میں مذہبی عقائد کو ایک جامع حکمت عملی کے طور پر اپنایا جا سکتا ہے۔
کینسر سے بچاؤ کے لیے تیز چہل قدمی بہترین عادت
یہ تحقیق اس بات کا ثبوت ہے کہ کینسر جیسے موذی مرض کے علاج میں صرف دوائیں اور تھراپیز ہی کافی نہیں بلکہ مریض کے مذہبی عقائد اور روحانی کیفیت کو بھی اہمیت دینا ضروری ہے۔ ایمان اور روحانیت نہ صرف مریض کے ذہنی دباؤ کو کم کرتے ہیں بلکہ علاج کے سفر کو آسان بھی بناتے ہیں۔
اس لیے ماہرین صحت اور معالجین کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ کینسر کے مریضوں کے ساتھ روحانیت اور عقائد پر بات کریں۔ بلاشبہ، کینسر کے علاج میں مذہبی عقائد ایک نئی امید اور طاقت فراہم کرتے ہیں جو مریض کو صحت یابی کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔









