استنبول پراسیکیوٹر نے اسرائیلی کارروائی پر تحقیقات شروع کر دیں
بین الاقوامی سطح پر جاری اسرائیل-فلسطین کشیدگی میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب اسرائیلی بحریہ نے "گلوبل صمود فلوٹیلا” نامی بحری قافلے پر کارروائی کرتے ہوئے متعدد ترک شہریوں کو گرفتار کر لیا۔ اس کارروائی کے بعد استنبول کے چیف پراسیکیوٹر کے دفتر نے اس معاملے پر باقاعدہ تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ ترک میڈیا کے مطابق، یہ تحقیقات اقوامِ متحدہ کے سمندری قوانین اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی ضوابط کی روشنی میں کی جا رہی ہیں۔
گرفتاری کا پس منظر
ترکی کے ذرائع ابلاغ کے مطابق، اسرائیلی بحریہ نے بین الاقوامی پانیوں میں کارروائی کرتے ہوئے 24 ترک شہریوں کو حراست میں لیا۔ یہ تمام افراد "گلوبل صمود فلوٹیلا” کے تحت غزہ کی جانب رواں دواں تھے، جو کہ محصور فلسطینیوں کے لیے امداد اور اظہارِ یکجہتی کی ایک علامتی کوشش تھی۔ اطلاعات کے مطابق، مجموعی طور پر 30 ترک شہریوں کو گرفتار کیا گیا، جن میں سے بعض کو یورپی ممالک میں ڈی پورٹ کیے جانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
استنبول پراسیکیوٹر کا ردعمل اور قانونی بنیادیں
اس واقعے کے بعد ترک عدلیہ نے فوری کارروائی کرتے ہوئے معاملے کی جامع تحقیقات کا اعلان کیا۔ استنبول کے چیف پراسیکیوٹر کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ:
"اسرائیلی بحریہ کی کارروائی میں ترک شہریوں کو آزادی سے محروم کرنا، غیر قانونی طور پر ٹرانسپورٹ کے ذرائع پر قبضہ، لوٹ مار، مادی نقصان، اور جسمانی و ذہنی تشدد جیسے جرائم شامل ہو سکتے ہیں، جن کی مکمل جانچ کی جائے گی۔”
یہ تحقیقات اقوام متحدہ کے "قانون برائے سمندری حدود” (UNCLOS) کی شقوں کے تحت کی جا رہی ہیں، جس کے مطابق بین الاقوامی پانیوں میں بغیر اجازت کسی بھی ملک کی شہری آزادیوں میں مداخلت عالمی قانون کی خلاف ورزی شمار ہوتی ہے۔
"گلوبل صمود فلوٹیلا” کیا ہے؟
"گلوبل صمود فلوٹیلا” ایک بین الاقوامی انسانی امدادی مشن ہے، جس میں مختلف ممالک کے رضاکار شامل ہوتے ہیں۔ اس کا مقصد غزہ کے عوام کے لیے طبی و خوراکی امداد پہنچانا، اور اسرائیلی محاصرے کے خلاف عالمی رائے عامہ کو بیدار کرنا ہوتا ہے۔ یہ قافلہ روایتی طور پر بحری جہازوں کے ذریعے غزہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے، حالانکہ اسرائیل اس قسم کی کوششوں کو غیر قانونی قرار دیتا ہے اور انہیں روکنے کے لیے عسکری طاقت استعمال کرتا ہے۔
بین الاقوامی پانیوں میں کارروائی: قانونی سوالات
اسرائیلی بحریہ کی جانب سے بین الاقوامی پانیوں میں کارروائی نے ایک بار پھر عالمی قوانین کے احترام پر سوال اٹھا دیے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے سمندری قوانین کے مطابق:
بین الاقوامی پانیوں میں پرامن جہاز رانی تمام ممالک کا حق ہے؛
کسی غیر ملکی بحری جہاز پر زبردستی کارروائی کرنا، اس کی تلاشی لینا یا اس پر قبضہ کرنا صرف مخصوص شرائط کے تحت جائز ہوتا ہے؛
انسانی امدادی مشن پر حملہ کرنا جنگی قوانین اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی تصور کی جاتی ہے۔
ان اصولوں کے پیش نظر ترکی کی جانب سے اس معاملے پر شدید ردعمل فطری ہے، اور استنبول پراسیکیوٹر کا تحقیقاتی اقدام ایک قانونی، اخلاقی اور سفارتی پیغام بھی ہے۔
عالمی ردعمل اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا مؤقف
اسرائیلی کارروائی پر دنیا بھر میں شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کی معروف عالمی تنظیموں جیسے:
- ایمنسٹی انٹرنیشنل
- ہیومن رائٹس واچ
- انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس
نے اس کارروائی کو "انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی” قرار دیتے ہوئے اسرائیل سے اس کی وضاحت اور جوابدہی کا مطالبہ کیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے ایک بیان میں کہا:
"بین الاقوامی پانیوں میں پرامن جہاز پر چڑھائی کرنا، اس کے مسافروں کو حراست میں لینا اور انہیں زبردستی واپس بھیجنا بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے۔ یہ انسانی ہمدردی کی کوششوں کو طاقت کے زور پر کچلنے کی کوشش ہے۔”
ترکی اور اسرائیل کے تعلقات پر اثرات
اس واقعے نے ترکی اور اسرائیل کے تعلقات کو ایک بار پھر کشیدگی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات 2010 کے "ماوی مرمرہ” واقعے کے بعد سے بار بار تناؤ کا شکار رہے ہیں۔ ماوی مرمرہ پر بھی اسرائیلی فورسز نے حملہ کیا تھا، جس میں 9 ترک شہری جاں بحق ہو گئے تھے۔
ترکی نے اس وقت بھی شدید سفارتی احتجاج کیا تھا، اور بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمات دائر کیے گئے تھے۔ موجودہ صورتحال میں بھی یہ امکان موجود ہے کہ ترک حکومت اس کیس کو بین الاقوامی کریمنل کورٹ (ICC) یا اقوام متحدہ کے متعلقہ فورمز میں لے جائے۔
انصاف کا مطالبہ یا سیاسی دباؤ؟
ناقدین کے مطابق، اس قسم کے واقعات میں تحقیقات کا مقصد صرف انصاف نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک سفارتی دباؤ کا ذریعہ بھی ہوتا ہے۔ تاہم، انسانی حقوق کے کارکنان اسے ایک ضروری قدم قرار دیتے ہیں کیونکہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے قانونی اقدامات ناگزیر ہیں۔
ترک حکومت اگر یہ ثابت کر دے کہ اسرائیلی بحریہ نے بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کی ہے، تو یہ کیس نہ صرف اسرائیل کی بین الاقوامی ساکھ پر اثر انداز ہو سکتا ہے بلکہ مستقبل میں ایسی کارروائیوں کے خلاف قانونی نظائر بھی قائم ہو سکتے ہیں۔
متاثرہ ترک شہریوں کا مؤقف
تاحال گرفتار ترک شہریوں کی طرف سے باقاعدہ بیانات سامنے نہیں آئے، تاہم مقامی میڈیا کے مطابق، ان میں کئی افراد معروف انسانی حقوق کارکن، صحافی، اور میڈیکل رضاکار شامل ہیں، جو صرف انسانیت کے ناطے غزہ کے محصور عوام کی مدد کرنا چاہتے تھے۔
گرفتار افراد کے اہلِ خانہ نے ترک حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنے شہریوں کی بازیابی کے لیے سفارتی اور قانونی اقدامات کرے۔
قانون، اخلاقیات اور عالمی ضمیر کا امتحان
استنبول پراسیکیوٹر کی جانب سے اسرائیلی کارروائی پر تحقیقات کا آغاز نہ صرف ایک قانونی ضرورت ہے بلکہ یہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش بھی ہے۔ اگر دنیا واقعی انسانی حقوق، آزادی، اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہے، تو اسے اس واقعے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
یہ واقعہ ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ طاقتور ممالک بھی قانون سے بالاتر نہیں، اور مظلوموں کی آواز بننے والے اداروں اور افراد کو عالمی تحفظ کی ضرورت ہے۔
