شکارپور میں ریلوے ٹریک پر دھماکہ، جعفر ایکسپریس کی چار بوگیاں پٹری سے اتر گئیں
صوبہ سندھ کے ضلع شکارپور کے قریب گاؤں سلطان کوٹ کے مقام پر ریلوے ٹریک پر ہونے والے زور دار جعفر ایکسپریس دھماکے نے علاقے میں خوف و ہراس پھیلا دیا۔ دھماکے کے نتیجے میں جعفر ایکسپریس کی چار بوگیاں پٹری سے اتر گئیں اور چار مسافر زخمی ہوگئے۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق دھماکہ اتنا شدید تھا کہ اس کی آواز دور دراز علاقوں تک سنی گئی۔ جائے وقوعہ پر فوری طور پر پولیس، ریسکیو ٹیمیں اور بم ڈسپوزل اسکواڈ پہنچ گئے۔
حادثے کی تفصیلات: جعفر ایکسپریس دھماکہ کیسے ہوا؟
پولیس حکام کے مطابق دھماکہ صبح کے وقت اس وقت ہوا جب جعفر ایکسپریس روہڑی سے کوئٹہ کی جانب جا رہی تھی۔ گاؤں سلطان کوٹ کے قریب اچانک ٹریک کے ایک حصے میں زوردار دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں ٹرین کی چار بوگیاں پٹری سے اتر گئیں۔
حادثے کے فوراً بعد ٹرین رک گئی اور عملے نے مسافروں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا۔ چار زخمی مسافروں کو قریبی اسپتال منتقل کر دیا گیا، جہاں ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی جا رہی ہے۔
ریلوے پولیس کے مطابق جعفر ایکسپریس دھماکہ کسی تخریبی کارروائی کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ شواہد اکھٹے کرنے کے لیے بم ڈسپوزل اسکواڈ کو طلب کیا گیا ہے، جو جائے وقوعہ سے نمونے اور شیل اکھٹے کر رہا ہے۔
ٹرینوں کی آمدورفت متاثر، مسافروں کے لیے بس سروس
حادثے کے بعد ریلوے حکام نے شکارپور سیکشن پر ٹرینوں کی آمدورفت عارضی طور پر معطل کر دی ہے۔ ٹریک کو بند کر کے مرمتی کام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
ڈی ایس ریلوے کے مطابق مرمت کے کام میں 8 سے 10 گھنٹے لگ سکتے ہیں، اور شام 5 بجے سے پہلے کسی ٹرین کی روانگی نہیں ہوگی۔ متاثرہ مسافروں کو ان کی منزل تک پہنچانے کے لیے متبادل بس سروس فراہم کی جا رہی ہے۔
تحقیقات کا آغاز: وزیر داخلہ سندھ کا نوٹس
وزیر داخلہ سندھ ضیا لنجار نے واقعے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے ایس ایس پی شکارپور سے تفصیلات طلب کر لی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جعفر ایکسپریس دھماکہ ایک سنگین دہشتگردی کا واقعہ معلوم ہوتا ہے، جس کی مکمل تفتیش کی جائے گی۔

انہوں نے ہدایت دی کہ "ریلوے ٹریک کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے اور ٹریک کی سیکیورٹی کو مزید سخت بنایا جائے۔”
علاقہ مکینوں کا ردعمل
گاؤں سلطان کوٹ کے رہائشیوں نے میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے صبح ایک زوردار دھماکے کی آواز سنی اور جب موقع پر پہنچے تو جعفر ایکسپریس کی کئی بوگیاں الٹ چکی تھیں۔ مقامی افراد نے ریسکیو ٹیموں کے پہنچنے سے پہلے زخمیوں کو نکالنے میں مدد دی۔
ایک عینی شاہد کے مطابق، "دھماکے کے فوراً بعد ٹریک کے قریب آگ کے شعلے دیکھے گئے، جو بعد میں خودبخود بجھ گئے۔”
ریلوے سیکیورٹی پر سوالات
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب سندھ کے ریلوے ٹریک کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ ماضی میں بھی جیکب آباد، سکھر اور شکارپور کے قریب ریلوے لائنوں پر اسی نوعیت کے دھماکے ہو چکے ہیں۔
ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ جعفر ایکسپریس دھماکہ کے بعد ملک بھر میں ریلوے سیکیورٹی کو مزید سخت کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
ریلوے سیکیورٹی فورس (آر پی ایف) نے اپنی گشت بڑھا دی ہے جبکہ حساس مقامات پر کیمرے نصب کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
جعفر ایکسپریس کی تاریخی اہمیت
جعفر ایکسپریس پاکستان ریلوے کی ایک اہم ٹرین ہے جو کوئٹہ سے پشاور تک چلتی ہے۔ یہ ٹرین بلوچستان، سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے درمیان مسافروں کو جوڑنے والی ایک کلیدی ریلوے سروس ہے۔

یہ حادثہ اس ٹرین کے اعتماد پر بھی سوال اٹھا رہا ہے۔ مسافروں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ریلوے لائنوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے تاکہ مستقبل میں اس نوعیت کے سانحات سے بچا جا سکے۔
عوامی ردعمل اور سوشل میڈیا پر بحث
جعفر ایکسپریس دھماکہ کے بعد سوشل میڈیا پر شہریوں نے حکومت اور ریلوے حکام پر سخت تنقید کی ہے۔ صارفین کا کہنا ہے کہ ریلوے لائنوں کی سیکیورٹی کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جانی چاہیے۔
ٹویٹر پر "#JaffarExpressBlast” ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہا ہے، جہاں ہزاروں صارفین زخمیوں کی صحتیابی کی دعا کر رہے ہیں اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
جعفر ایکسپریس دھماکہ قومی سلامتی کے لیے چیلنج
شکارپور میں پیش آنے والا جعفر ایکسپریس دھماکہ نہ صرف ایک تخریبی کارروائی ہے بلکہ ریلوے نظام اور قومی سلامتی کے لیے ایک بڑا چیلنج بھی بن گیا ہے۔
ریلوے حکام کو اس واقعے سے سبق سیکھتے ہوئے سیکیورٹی اقدامات میں بہتری لانا ہوگی تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات کی روک تھام ممکن ہو سکے۔
جعفر ایکسپریس حملہ نہیں، صرف پائلٹ انجن پر فائرنگ ہوئی: ریلوے ترجمان کی وضاحت