ٹک ٹاک پر لڑکے کا روپ دھارنے والی لڑکی کی گرفتاری، ماں کی شکایت پر کارروائی
بٹ خیلہ: سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹک ٹاک پر روزانہ ہزاروں ویڈیوز اپلوڈ کی جاتی ہیں، مگر کبھی کبھار کچھ ویڈیوز غیر معمولی تنازعات کو جنم دیتی ہیں۔ حال ہی میں ٹک ٹاک پر لڑکے کا روپ دھارنے والی لڑکی کی گرفتاری نے پورے علاقے میں بحث چھیڑ دی۔
واقعے کی تفصیلات
پولیس ذرائع کے مطابق مالاکنڈ کے علاقے کوٹ میں ایک لڑکی نے ٹک ٹاک پر لڑکے کا روپ دھارنے والی لڑکی کے طور پر متعدد ویڈیوز بنائیں جو تیزی سے وائرل ہوئیں۔ ان ویڈیوز میں وہ مردانہ لباس، بالوں کا اسٹائل اور انداز اختیار کرتی نظر آتی تھی۔
جب یہ ویڈیوز گھر والوں تک پہنچیں تو اس کی والدہ نے لیوی تھانہ کوٹ میں شکایت درج کرائی کہ بیٹی کے ایسے رویے سے خاندان اور معاشرے کی بدنامی ہو رہی ہے۔ شکایت کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے لڑکی کو حراست میں لے لیا۔
پولیس کا مؤقف
لیوی تھانہ کوٹ کے مطابق، لڑکی نے دورانِ تفتیش اعتراف کیا کہ وہ محض تفریح کے لیے ویڈیوز بنا رہی تھی۔
پولیس نے بتایا کہ ماں کی درخواست پر ٹک ٹاک پر لڑکے کا روپ دھارنے والی لڑکی کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا، بشرطِ یہ کہ وہ دوبارہ ایسی سرگرمی میں ملوث نہیں ہوگی۔
ماں کا موقف
لڑکی کی والدہ نے پولیس کو بتایا کہ ان کا مقصد بیٹی کو جیل بھیجنا نہیں بلکہ اسے اصلاح کی راہ پر لانا ہے۔
انہوں نے کہا:
“میں نے شکایت صرف اس لیے کی کہ میری بیٹی کو احساس ہو کہ اس کا یہ عمل معاشرتی لحاظ سے غلط ہے۔”
یہ بیان مقامی سطح پر ہمدردی کا باعث بنا کیونکہ کئی والدین بھی سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے فکرمند ہیں۔
سوشل میڈیا کا دباؤ اور شہرت کی خواہش
ماہرین کے مطابق آج کے نوجوانوں میں مقبولیت حاصل کرنے کا جنون بڑھ رہا ہے۔ ٹک ٹاک پر لڑکے کا روپ دھارنے والی لڑکی کا کیس بھی اسی رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔
سائبر ماہر ڈاکٹر ریحان خان کے مطابق:
“سوشل میڈیا کی دنیا میں لائکس، ویوز اور فالوورز کا دباؤ بعض اوقات نوجوانوں کو غیر روایتی اقدامات پر مجبور کر دیتا ہے۔”
ٹک ٹاک اور اخلاقی حدود
ٹک ٹاک پر مختلف طرز کی ویڈیوز عام ہیں، مگر جب کوئی ویڈیو معاشرتی حدود کو پار کرتی ہے تو ردعمل سامنے آتا ہے۔
پچھلے کچھ برسوں میں پاکستان میں ٹک ٹاک پر لڑکے کا روپ دھارنے والی لڑکیوں اور لڑکوں کے کئی کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔
سوشل میڈیا ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ صرف تفریح تک محدود نہیں رہا بلکہ شناخت اور اخلاقیات کا بحران بن چکا ہے۔
پولیس کی کارروائی اور اثرات
پولیس نے کیس کو “سوشل میڈیا اخلاقی ضابطہ” کے تحت نمٹایا۔
افسران کے مطابق، ٹک ٹاک پر لڑکے کا روپ دھارنے والی لڑکی کو صرف وارننگ اور اصلاحی بیان کے بعد رہا کیا گیا تاکہ وہ دوبارہ ویسی ویڈیوز نہ بنائے۔
علاقے کے لوگوں کا ردعمل
بٹ خیلہ کے مقامی لوگوں نے کہا کہ لڑکی کی گرفتاری ایک سبق ہے کہ سوشل میڈیا پر حد سے تجاوز کرنے والے افراد کو سوچنا چاہیے۔
ایک رہائشی نے کہا:
“ہماری ثقافت میں ایسے کام برداشت نہیں کیے جاتے۔ بہتر ہے نوجوان حدود میں رہ کر سوشل میڈیا استعمال کریں۔”
سائبر قانون اور آگاہی کی کمی
قانونی ماہرین کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا ضوابط کے بارے میں عام شہریوں کو آگاہی کی کمی ہے۔
PECA (پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ) کے تحت اگر کوئی فرد سوشل میڈیا پر ایسا مواد اپلوڈ کرتا ہے جو معاشرتی اقدار کے خلاف ہو، تو اس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔
نفسیاتی پہلو
نفسیات دانوں کے مطابق، کچھ نوجوان اپنی شناخت کے ساتھ تجربہ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
ایسے میں ٹک ٹاک پر لڑکے کا روپ دھارنے والی لڑکی جیسی مثالیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ سوشل میڈیا ایک طرح سے اظہار کا پلیٹ فارم بھی بن گیا ہے، لیکن اس کا استعمال سمجھداری سے ہونا چاہیے۔
ماہرین کی سفارشات
- والدین اپنے بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھیں
- تعلیمی اداروں میں سوشل میڈیا کے ذمہ دارانہ استعمال پر آگاہی پروگرام ہوں
- پلیٹ فارمز کو مقامی قوانین کے مطابق مواد کی نگرانی کرنی چاہیے
ٹک ٹاکر ثناء یوسف قتل کیس – عدالت کی سماعت بغیر پیش رفت 4 اکتوبر تک ملتوی
یہ واقعہ ایک انتباہ ہے کہ ٹک ٹاک اور دیگر پلیٹ فارمز پر تفریح اور غیر اخلاقی حرکات کے درمیان باریک لکیر موجود ہے۔
اگرچہ ٹک ٹاک پر لڑکے کا روپ دھارنے والی لڑکی کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا، مگر اس کیس نے ایک بڑا سوال کھڑا کر دیا ہے:
کیا سوشل میڈیا آزادی اظہار کا ذریعہ ہے یا معاشرتی اقدار کو چیلنج کرنے کا پلیٹ فارم؟