چینی کی ترسیل پر پابندی، مارکیٹ میں ممکنہ بحران اور قیمتوں میں اضافہ — شوگر ملز ایسوسی ایشن کا بڑا انکشاف
پاکستان میں چینی کی ترسیل پر پابندی نے شوگر انڈسٹری، تاجروں اور عام عوام میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔
شوگر ملز ایسوسی ایشن نے وفاقی وزیرِ خزانہ اور وفاقی وزیر برائے غذائی تحفظ کو ایک تفصیلی خط لکھ کر خبردار کیا ہے کہ چینی کی ترسیل پر پابندی کی وجہ سے مارکیٹ میں چینی کی شدید قلت پیدا ہونے کا خطرہ ہے اور قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ایف بی آر کے ایس-ٹریک پورٹل کی بندش
خط کے مطابق، پنجاب اور سندھ کی متعدد شوگر ملوں میں ایف بی آر کے ایس-ٹریک پورٹل (S-Track Portal) بند ہونے کی شکایات سامنے آئی ہیں۔
شوگر ملز ایسوسی ایشن نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ پورٹل کی بندش کے باعث چینی کی لفٹنگ بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور چینی کی ترسیل پر پابندی جیسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔
ایسوسی ایشن نے کہا کہ اگر یہ پابندی جاری رہی تو مارکیٹ میں چینی کی قلت بڑھے گی، سپلائی چین متاثر ہوگی، اور عام صارفین کو چینی مہنگے داموں خریدنا پڑے گی۔
شوگر ملز کا مؤقف
شوگر ملز ایسوسی ایشن کے مطابق، ایف بی آر کے نمائندے ملوں کے گیٹ پر موجود ہیں اور چینی کی لفٹنگ کو روک رہے ہیں۔
ایسوسی ایشن نے دعویٰ کیا کہ ایس-ٹریک پورٹل کو بار بار بلاک کرنا معمول بن چکا ہے، جس کے نتیجے میں چینی کی ترسیل پر پابندی غیر اعلانیہ طور پر نافذ ہو چکی ہے۔
انہوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ ایف بی آر کے کچھ اہلکار پورٹل کے پاس ورڈز تبدیل کر چکے ہیں، جس کے باعث کئی ملیں اپنا ڈیٹا اپ ڈیٹ کرنے سے قاصر ہیں۔
غیر قانونی اقدامات پر تشویش
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ پورٹلز کو بلاک کر کے 8 بلین روپے سبسڈی والی درآمدی چینی کو مارکیٹ میں فروخت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
شوگر ملز ایسوسی ایشن نے اس اقدام کو ’’غیر قانونی‘‘ اور ’’منڈی کے توازن کے خلاف‘‘ قرار دیا ہے۔
ایسوسی ایشن کے مطابق، چینی کی ترسیل پر پابندی کے پیچھے مخصوص گروہوں کو فائدہ پہنچانے کی سازش کارفرما ہو سکتی ہے۔
درآمدی چینی کی پالیسی پر اعتراض
شوگر ملز ایسوسی ایشن نے اپنی شکایت میں یہ بھی کہا کہ حکومت غیر ضروری طور پر 200 ملین ڈالر مالیت کی سبسڈائزڈ چینی درآمد کر رہی ہے۔
ان کے مطابق، یہ پالیسی نہ صرف ملکی معیشت پر بوجھ ڈالے گی بلکہ مقامی پیداوار کو بھی نقصان پہنچائے گی۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر چینی کی ترسیل پر پابندی برقرار رہی اور درآمدی چینی کو ترجیح دی گئی تو مارکیٹ میں بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
مارکیٹ میں ممکنہ اثرات
ماہرین معاشیات کے مطابق، چینی کی ترسیل پر پابندی کے نتیجے میں سپلائی چین ٹوٹنے کا خطرہ ہے، جس سے قیمتیں تیزی سے اوپر جا سکتی ہیں۔
اگر چینی کی فراہمی مسلسل متاثر رہی تو ہول سیل مارکیٹ میں قلت بڑھے گی اور پرچون سطح پر چینی کی قیمت 200 روپے فی کلو تک جا سکتی ہے۔
اس وقت بھی بعض شہروں میں چینی کی قیمت 175 روپے فی کلو کے قریب پہنچ چکی ہے۔
حکومت سے فوری اقدامات کا مطالبہ
شوگر ملز ایسوسی ایشن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر ایف بی آر کو ہدایت کی جائے کہ وہ ایس-ٹریک پورٹل کو بحال کرے تاکہ چینی کی ترسیل پر پابندی ختم ہو اور مارکیٹ میں سپلائی بحال ہو سکے۔
ایسوسی ایشن نے کہا کہ اگر حکومت نے فوری ایکشن نہ لیا تو عوامی سطح پر چینی کی کمی شدید بحران کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔
ایف بی آر کی ممکنہ وضاحت
ذرائع کے مطابق، ایف بی آر نے تاحال اس حوالے سے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا، تاہم ادارے کے بعض حکام کا کہنا ہے کہ پورٹل کی بندش عارضی تکنیکی وجوہات کی بنا پر ہوئی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ چینی کی ترسیل پر پابندی کا مقصد ٹیکس چوری روکنا اور چینی کی غیر قانونی فروخت پر نظر رکھنا ہے۔
البتہ شوگر ملز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کے یہ اقدامات انتظامی غلطیوں اور غیر شفاف پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔
انڈسٹری پر اثرات
چینی کی ترسیل پر پابندی سے نہ صرف شوگر ملوں کی پیداوار متاثر ہو رہی ہے بلکہ اس سے وابستہ لاکھوں مزدوروں کی روزی پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔
چینی کی سپلائی رکنے سے گنے کی خریداری بھی متاثر ہوگی، جس کا براہ راست نقصان کسانوں کو پہنچے گا۔
مل مالکان کا کہنا ہے کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو ملیں اپنی پیداوار روکنے پر مجبور ہو جائیں گی، جس سے نہ صرف مقامی مارکیٹ بلکہ برآمدات بھی متاثر ہوں گی۔
ماہرین کی آراء
ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی کی ترسیل پر پابندی کے فیصلے کے معاشی اثرات طویل المدتی ہو سکتے ہیں۔
یہ نہ صرف قیمتوں میں اضافہ کرے گا بلکہ افراطِ زر میں بھی مزید اضافہ ہوگا۔
اگر حکومت نے فوری اقدامات نہ کیے تو آئندہ چند ہفتوں میں چینی کی قیمتیں عوامی قوتِ خرید سے باہر جا سکتی ہیں۔
پاکستان میں چینی کی قیمتیں عوامی بحث کا مرکز
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو چینی کی ترسیل پر پابندی نے ایک بڑے معاشی بحران کی بنیاد رکھ دی ہے۔
شوگر ملز ایسوسی ایشن کا خط حکومت کے لیے ایک وارننگ ہے کہ اگر یہ معاملہ فوری طور پر حل نہ ہوا تو مارکیٹ میں چینی کی شدید قلت، مہنگائی میں اضافہ، اور عوامی بے چینی میں اضافہ یقینی ہے۔