سوئی گیس پالیسی میں بڑی تبدیلی، صارفین کے لیے نئے قوانین اور مشکلات میں اضافہ
پاکستان میں سوئی گیس پالیسی ایک بار پھر زیرِ بحث ہے، کیونکہ حکومت نے حال ہی میں نئے کنکشنز، نرخوں اور شرائط میں بڑی تبدیلیاں متعارف کروائی ہیں۔ راولپنڈی، اسلام آباد اور دیگر شہروں میں عوام کی شکایات کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ نئے گیس کنکشن حاصل کرنا اب پہلے سے کہیں زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔
نئے کنکشنز کے لیے سخت شرائط
تازہ سوئی گیس پالیسی کے مطابق اب ہر وہ شہری جو نیا گیس کنکشن حاصل کرنا چاہتا ہے، اسے ایک بیانِ حلفی جمع کرانا ہوگا۔ اس بیان میں واضح طور پر درج ہے کہ صارف ایل این جی کی قیمتوں میں اضافے پر کوئی اعتراض نہیں کرے گا۔ یہ شرط عوام میں تشویش پیدا کر رہی ہے، کیونکہ گیس کے نرخ پہلے ہی مہنگائی کے باعث عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکے ہیں۔
ذرائع کے مطابق، سوئی گیس پالیسی کے تحت اگر کوئی شخص گیس استعمال نہ بھی کرے، تو بھی اسے ماہانہ 5 سے 6 ہزار روپے تک کا بل ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس اقدام نے صارفین کو مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے، اور لوگ نئے کنکشن کے لیے درخواست دینے سے گریز کر رہے ہیں۔
صارفین کی دلچسپی میں کمی
محکمہ سوئی گیس کے مطابق، سوئی گیس پالیسی میں سخت شرائط کے بعد نئے کنکشنز کے لیے آنے والے صارفین میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ رپورٹس کے مطابق، ہر 100 میں سے صرف 2 افراد ہی اپنی درخواستیں جمع کروا رہے ہیں، جبکہ باقی لوگ دفاتر سے واپس لوٹ جاتے ہیں۔
ایک صارف کا کہنا تھا:
"پہلے ہی گیس کے بل برداشت سے باہر ہیں، اب نئی سوئی گیس پالیسی میں ایسے قوانین شامل کر دیے گئے ہیں جن سے عام آدمی کے لیے نیا کنکشن لینا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔”
ایل این جی کی قیمتوں میں اضافہ اور اثرات
ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی سوئی گیس پالیسی میں ایل این جی کی قیمتوں کو عالمی مارکیٹ سے منسلک کیا گیا ہے، جس کے باعث مقامی صارفین کو بھی عالمی نرخوں میں اتار چڑھاؤ کا اثر برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس پالیسی کے تحت اگر عالمی مارکیٹ میں قیمتیں بڑھتی ہیں تو وہی اضافہ براہِ راست مقامی بلوں میں بھی شامل کر دیا جاتا ہے۔
یہ طرزِ عمل غریب اور متوسط طبقے کے لیے ناقابلِ برداشت ثابت ہو رہا ہے، کیونکہ زیادہ تر گھروں میں گیس بنیادی ضرورت کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔
پالیسی پر عوامی ردعمل
نئی سوئی گیس پالیسی کے خلاف عوامی حلقوں میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ پالیسی میں عام صارف کی ضروریات کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ حکومت نے ریلیف دینے کے بجائے مزید بوجھ ڈال دیا ہے۔
کچھ شہریوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ سوئی گیس پالیسی پر نظرِ ثانی کرے اور ایسے اقدامات کرے جن سے نہ صرف صنعتوں بلکہ گھریلو صارفین کو بھی فائدہ پہنچے۔
بیانِ حلفی کی شرط پر تنازعہ
نئی سوئی گیس پالیسی کے سب سے متنازع حصے میں وہ بیانِ حلفی شامل ہے جس میں صارف کو یقین دہانی کرانی پڑتی ہے کہ وہ قیمتوں کے اضافے پر کوئی اعتراض نہیں کرے گا۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ شق آئینی طور پر کمزور ہے، کیونکہ صارف کو اپنی بنیادی ضرورت کے لیے بھی اضافی مالی بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔
گیس بلوں میں اضافے کی شکایات
راولپنڈی اور اسلام آباد کے متعدد صارفین نے شکایت کی ہے کہ وہ گیس استعمال نہیں کر رہے، مگر انہیں سوئی گیس پالیسی کے تحت بھاری بل موصول ہو رہے ہیں۔
کچھ صارفین کو پانچ ہزار سے چھ ہزار روپے تک کے بل موصول ہوئے ہیں، حالانکہ ان کے گھروں میں گیس کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔
ایک شہری نے کہا:
“ہم نے گیس استعمال نہیں کی، لیکن بل اتنا آ رہا ہے جیسے کوئی بڑی فیکٹری چلا رہے ہوں۔ نئی سوئی گیس پالیسی نے تو سب کو پریشان کر دیا ہے۔”
حکومتی موقف
حکومت کا مؤقف ہے کہ موجودہ سوئی گیس پالیسی کا مقصد نظام کو بہتر بنانا اور نقصانات کو کم کرنا ہے۔
وزارتِ توانائی کے مطابق، ملک میں گیس کی پیداوار میں کمی اور درآمدی ایل این جی پر انحصار بڑھنے کے باعث حکومت کو یہ اقدامات اٹھانے پڑے۔
ایک سرکاری افسر نے بتایا کہ:
“ہماری سوئی گیس پالیسی کا مقصد طویل مدتی استحکام ہے۔ اگر ہم اصلاحات نہ کریں تو مستقبل میں ملک کو شدید گیس بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔”
ماہرین کی رائے
توانائی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سوئی گیس پالیسی کو بہتر بنانے کے لیے شفافیت اور صارف دوست اقدامات کی ضرورت ہے۔
ان کے مطابق، صرف قیمتیں بڑھانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ متبادل توانائی ذرائع، جیسے بایو گیس اور سولر ہیٹنگ کے استعمال کو فروغ دینا چاہیے۔
صارفین کے لیے تجاویز
ماہرین نے عوام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سوئی گیس پالیسی کے تحت دی گئی ہدایات پر عمل کریں، گیس کے غیر ضروری استعمال سے گریز کریں اور متبادل ذرائع استعمال کرنے پر غور کریں۔
مزید برآں، اگر کسی صارف کو بلاوجہ زیادہ بل موصول ہو، تو وہ متعلقہ دفتر میں شکایت درج کروا سکتا ہے۔
آن لائن سسٹم کے ذریعے نئے گھریلو گیس کنکشن کا حصول مزید آسان بنا دیا گیا
نئی سوئی گیس پالیسی نے عوامی سطح پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
جہاں حکومت اسے اصلاحات کا حصہ قرار دے رہی ہے، وہیں عام شہری اسے معاشی بوجھ سمجھ رہے ہیں۔
وقت ہی بتائے گا کہ یہ سوئی گیس پالیسی واقعی ملکی معیشت کو سہارا دے گی یا عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا کرے گی۔
