شہباز شریف کا ٹرمپ کو خراجِ تحسین، فلسطینی ریاست کے قیام پر پاکستان کا مؤقف دوٹوک
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ فلسطین کے مسئلے پر پاکستان کی پوزیشن غیر متزلزل اور اصولی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 1967 سے پہلے کی سرحدوں کے ساتھ ایک خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام پاکستان کی مشرقِ وسطیٰ پالیسی کی بنیاد ہے، اور یہ اصولی مؤقف نہ صرف ماضی میں برقرار رہا ہے بلکہ مستقبل میں بھی اس سے انحراف ممکن نہیں۔
یہ بیان انہوں نے مصر کے شہر شرم الشیخ میں مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ صورتحال پر ہونے والے اہم اجلاس میں شرکت کے بعد وطن واپسی سے قبل اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری کیا۔ اس بیان نے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا کہ پاکستان عالمی سیاست میں انصاف، انسانی حقوق، اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کی مکمل حمایت کرتا ہے۔
فلسطین کے حوالے سے پاکستان کا تاریخی مؤقف
پاکستان کی فلسطین سے وابستگی کوئی نئی بات نہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے ہی تمام حکومتوں نے فلسطینی عوام کے حق میں آواز بلند کی ہے۔ پاکستان کا ماننا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کا قیام صرف اسی وقت ممکن ہے جب فلسطینی عوام کو ان کا حق دیا جائے — ایک آزاد اور خودمختار ریاست، جس کے دارالحکومت کے طور پر القدس الشریف کو تسلیم کیا جائے۔
1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل نے غربِ اردن، مشرقی یروشلم (القدس)، اور غزہ کی پٹی سمیت کئی فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اقوامِ متحدہ کی متعدد قراردادیں، خاص طور پر قرارداد 242 اور 338، اسرائیل سے ان علاقوں سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ پاکستان ان قراردادوں کی مکمل حمایت کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف کا موجودہ بیان اس پالیسی کی توسیع تصور کیا جا رہا ہے۔
غزہ کی صورتحال اور انسانی بحران
گزشتہ چند مہینوں سے غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری، محاصرے، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہزاروں فلسطینی شہید اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ اسپتال، اسکول، اور پناہ گاہیں تک نشانہ بنائی گئیں، جسے عالمی برادری نے جنگی جرائم سے تعبیر کیا ہے۔
ان حالات میں پاکستان کا سفارتی کردار، خاص طور پر اسلامی ممالک کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے، انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ شرم الشیخ اجلاس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا، جہاں وزیراعظم شہباز شریف نے بین الاقوامی سطح پر فلسطینی کاز کے لیے آواز بلند کی۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شکریہ: امن کے لیے مثبت پیش رفت
وزیراعظم نے اپنے بیان میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے کردار ادا کیا۔ شہباز شریف نے کہا:
"صدر ٹرمپ کا شکریہ کہ انہوں نے قتل عام رکوانے کے لیے قدم اٹھانے کا وعدہ کیا اور اسے پورا کیا۔ ان کی امن کے لیے غیر معمولی خدمات کو سراہتے رہیں گے۔”
یہ بیان کئی حوالوں سے غیر معمولی ہے۔ ایک طرف تو یہ ایک امریکی صدر کے مثبت کردار کا اعتراف ہے، دوسری جانب یہ اس امر کا اظہار بھی ہے کہ پاکستان صرف تنقید نہیں کرتا بلکہ جہاں کسی ملک یا رہنما نے امن کی کوشش کی ہو، وہاں ان کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ماضی میں صدر ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ پالیسی پر کئی حلقوں نے تنقید کی تھی، خاص طور پر جب انہوں نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا اور امریکی سفارتخانہ وہاں منتقل کیا۔ تاہم، غزہ جنگ بندی میں ممکنہ کردار ایک ایسا پہلو ہے جس کا اعتراف وزیراعظم پاکستان نے کھلے دل سے کیا۔
پاکستان کا عالمی برادری سے مطالبہ
شہباز شریف نے صرف امریکی قیادت ہی نہیں بلکہ پوری عالمی برادری کو مخاطب کرتے ہوئے زور دیا کہ:
- اسرائیلی جارحیت بند کی جائے۔
- فلسطینی علاقوں میں فوری انسانی امداد پہنچائی جائے۔
- اقوامِ متحدہ اپنی قراردادوں پر عملدرآمد یقینی بنائے۔
- دو ریاستی حل کی طرف فوری پیش رفت ہو۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان، فلسطین کے مسئلے پر او آئی سی (OIC)، اقوامِ متحدہ، اور دیگر عالمی فورمز پر ہر ممکن سفارتی، اخلاقی اور انسانی مدد جاری رکھے گا۔
پاکستان اور فلسطین: دلوں کا رشتہ
پاکستانی عوام کے دل ہمیشہ فلسطینی بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ہر بار جب غزہ یا دیگر علاقوں پر حملہ ہوتا ہے، پاکستان کے گلی کوچوں میں احتجاج، دعائیں اور یکجہتی کی تصاویر ابھرتی ہیں۔ اسکولوں میں دعائیہ تقاریب، سوشل میڈیا پر یکجہتی مہمات، اور فلسطینی پرچموں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی — یہ سب پاکستان کے اس جذباتی تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ حکومتِ پاکستان کے ہر سطح پر دیے گئے بیانات محض رسمی کارروائیاں نہیں، بلکہ عوامی جذبات کی نمائندگی ہوتے ہیں۔
آگے کا راستہ: سفارت، اتحاد اور دباؤ
فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے صرف بیانات کافی نہیں، بلکہ عملی سفارتی حکمت عملی، مسلم دنیا کا اتحاد، اور عالمی طاقتوں پر مسلسل دباؤ ہی وہ راستے ہیں جن سے پائیدار امن ممکن ہو سکتا ہے۔
پاکستان کا کردار اس میں مزید اہم ہو سکتا ہے اگر:
- وہ اسلامی ممالک کے درمیان مؤثر سفارتی پل کا کام کرے۔
- اقوامِ متحدہ کی سطح پر مستقل قراردادوں کے لیے لابنگ تیز کرے۔
- انسانی بنیادوں پر فلسطینی عوام کے لیے امدادی مشن بھیجے۔
- فلسطینی عوام کی آواز عالمی میڈیا تک پہنچانے میں کردار ادا کرے۔
اصولی مؤقف کی کامیابی کا سفر جاری ہے
وزیراعظم شہباز شریف کا حالیہ بیان ایک مرتبہ پھر اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اصولوں پر مبنی ہے۔ فلسطین کی آزادی اور خودمختاری پاکستان کے لیے نہ صرف ایک سفارتی مقصد ہے بلکہ ایک اخلاقی، انسانی اور اسلامی فریضہ بھی ہے۔

