شادی کرنے والے جوڑوں کے لیے حکومتی اقدامات اور فلاحی پروگراموں کی اہمیت
پاکستان میں گزشتہ چند برسوں سے حکومت کی جانب سے ایسے متعدد فلاحی پروگرام شروع کیے گئے ہیں جن کا مقصد شادی کرنے والے جوڑوں کے لیے مالی معاونت فراہم کرنا ہے تاکہ وہ زندگی کے نئے سفر کا آغاز باعزت طریقے سے کر سکیں۔ خصوصاً مستحق خاندانوں کے لیے شادی ایک بڑا مالی چیلنج ثابت ہوتی ہے، کیونکہ جہیز، ولیمے اور دیگر اخراجات ان کے وسائل سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسے حالات میں اگر حکومت یا سماجی ادارے مدد کے لیے آگے آئیں تو یہ نہ صرف ان خاندانوں کا بوجھ کم کرتا ہے بلکہ ایک فلاحی معاشرے کی بنیاد بھی رکھتا ہے۔
دھی رانی پروگرام — شادی کرنے والے جوڑوں کے لیے امید کی کرن
پنجاب حکومت کا “دھی رانی پروگرام” شادی کرنے والے جوڑوں کے لیے ایک اہم اقدام کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت اجتماعی شادیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، جہاں مستحق بیٹیوں کی شادیاں حکومتی سرپرستی میں انجام پاتی ہیں۔ اس پروگرام کا سب سے منفرد پہلو یہ ہے کہ شادی کرنے والے جوڑوں کے لیے مالی امداد کی رقم براہِ راست اے ٹی ایم کارڈ کے ذریعے فراہم کی جاتی ہے تاکہ شفافیت اور سہولت دونوں برقرار رہیں۔
تازہ ترین مرحلے میں لاہور میں 130 مستحق بیٹیوں کی اجتماعی شادی منعقد ہوئی، جس میں ہر جوڑے کو دو لاکھ روپے کی سلامی اے ٹی ایم کارڈ کے ذریعے دی گئی۔ یہ اقدام اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت سماجی فلاح اور خواتین کے احترام کے لیے سنجیدہ ہے۔ وزیرِ سماجی بہبود سہیل شوکت بٹ کے مطابق “دھی رانی پروگرام” شادی کرنے والے جوڑوں کے لیے امید کی نئی کرن ہے جو مستحق گھرانوں کے لیے خوشیوں کے دروازے کھولتا ہے۔
مالی امداد کے فوائد — شادی کرنے والے جوڑوں کے لیے آسانیاں
جب حکومت براہِ راست مالی امداد فراہم کرتی ہے تو شادی کرنے والے جوڑوں کے لیے زندگی کے آغاز میں کئی سہولتیں پیدا ہوتی ہیں۔ دو لاکھ روپے کی سلامی صرف رقم نہیں بلکہ ایک نئی زندگی کا سہارا ہے۔ اس سے نہ صرف گھر بسانے میں مدد ملتی ہے بلکہ معاشرتی خوداعتمادی بھی بڑھتی ہے۔
پاکستان جیسے معاشروں میں جہاں بیٹی کی شادی والدین کے لیے سب سے بڑا مالی دباؤ بن جاتی ہے، وہاں یہ پروگرام انہیں سکون اور خوشی فراہم کرتا ہے۔
اجتماعی شادیوں کے سماجی اثرات
اجتماعی شادیوں کے ذریعے نہ صرف مالی بوجھ کم ہوتا ہے بلکہ اس سے معاشرتی برابری کو بھی فروغ ملتا ہے۔ شادی کرنے والے جوڑوں کے لیے یہ ایک موقع ہوتا ہے کہ وہ عزت و وقار کے ساتھ اپنی نئی زندگی کا آغاز کریں، بغیر کسی دکھاوے یا فضول اخراجات کے۔
ایسی شادیوں میں دولت یا نمودونمائش کی بنیاد پر تفریق نہیں کی جاتی، اور ہر جوڑے کو یکساں عزت و احترام کے ساتھ رخصت کیا جاتا ہے۔
خواتین کا تحفظ اور خودداری
“دھی رانی پروگرام” جیسے اقدامات دراصل خواتین کی عزت و خودداری کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ہیں۔ جب حکومت شادی کرنے والے جوڑوں کے لیے براہِ راست مدد فراہم کرتی ہے تو یہ پیغام دیتی ہے کہ خواتین سماجی فلاح کا مرکزی حصہ ہیں۔
ایسے پروگرام نہ صرف خواتین کے حقوق کو مضبوط کرتے ہیں بلکہ معاشرے میں صنفی توازن کو بھی فروغ دیتے ہیں۔
مستقبل کے اہداف — زیادہ جوڑوں کے لیے خوشیاں
اب تک “دھی رانی پروگرام” کے تحت 3 ہزار سے زائد بیٹیوں کی شادیاں سرکاری سرپرستی میں ہو چکی ہیں جبکہ حکومت کا ہدف ہے کہ رواں سال 5 ہزار سے زائد مستحق بیٹیوں کی شادیاں کرائی جائیں۔
اس پروگرام کو مزید مؤثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ نجی شعبہ، مخیر حضرات، اور سماجی تنظیمیں بھی اس میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ شادی کرنے والے جوڑوں کے لیے سہولتیں پیدا کی جا سکیں۔
حکومت کی فلاحی پالیسی اور عوامی اطمینان
حکومتِ پنجاب نے فلاحی ریاست کے وژن کے تحت یہ پروگرام شروع کیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عوامی بہبود حکومت کی اولین ترجیح ہے۔
ایسے پروگرامز کا دائرہ اگر ملک کے دیگر صوبوں تک پھیلایا جائے تو یہ نہ صرف شادی کرنے والے جوڑوں کے لیے آسانیاں پیدا کرے گا بلکہ ملک بھر میں معاشرتی ہم آہنگی اور استحکام بھی بڑھے گا۔
بھارتی اداکارہ سارہ خان کی شادی کی تصدیق، پاکستانی ڈراموں کی مشہور اداکارہ نے مداحوں کو حیران کردیا
آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ “دھی رانی پروگرام” اور اس جیسے دیگر اقدامات شادی کرنے والے جوڑوں کے لیے امید، خوشی، اور باعزت زندگی کے دروازے کھول رہے ہیں۔
جب ایک ریاست اپنے شہریوں، خاص طور پر مستحق خاندانوں کی مدد کرتی ہے تو وہ صرف مالی امداد نہیں دیتی بلکہ ایک مضبوط اور مہربان معاشرہ تشکیل دیتی ہے۔