افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی معطلی: ایف بی آر کا غیر معینہ مدت کیلئے بڑا فیصلہ
پاکستان کے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ایک اہم اور دور رس نتائج کی حامل پیش رفت میں کراچی کی بندرگاہوں سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی ٹرانسپورٹیشن کو غیر معینہ مدت کے لیے روکنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ اس اقدام نے نہ صرف دو طرفہ تجارت پر اثر ڈالا ہے بلکہ خطے میں جاری کشیدہ حالات، بندرگاہوں پر کنٹینرز کے بڑھتے بوجھ اور زمینی حقائق کو بھی نمایاں کر دیا ہے۔
پس منظر: افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کیا ہے؟
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پاکستان اور افغانستان کے درمیان 1965 کے معاہدے پر مبنی ایک تجارتی بندوبست ہے، جس کے تحت افغان درآمد کنندگان پاکستان کی بندرگاہوں (خصوصاً کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم) سے سامان وصول کر کے افغانستان منتقل کرتے ہیں۔ یہ تجارتی روٹ افغانستان کی معیشت کا ایک اہم ذریعہ ہے، جب کہ پاکستان کے لیے ٹرانزٹ فیس، لوکل مارکیٹ کے لیے کاروباری مواقع اور بندرگاہوں کی آمدنی میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔
اجلاس کی تفصیلات
یہ فیصلہ ڈائریکٹوریٹ آف ٹرانزٹ ٹریڈ ہیڈکوارٹر کسٹمز ہاؤس کراچی میں منعقدہ ایک ہنگامی اجلاس کے بعد کیا گیا، جس کی صدارت ڈی جی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ نے کی۔ اجلاس میں کوئٹہ اور پشاور کے ڈائریکٹر افغان ٹرانزٹ نے بھی بذریعہ زوم شرکت کی۔
اجلاس کے بعد کسٹمز جنرل آرڈر 98.2025 جاری کیا گیا، جس میں صاف طور پر کہا گیا کہ:
"افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی ٹرانسپورٹیشن کو غیر معینہ مدت تک معطل کیا جا رہا ہے، کیونکہ پشاور اور کوئٹہ کسٹمز اسٹیشنز پر مزید کنٹینرز رکھنے کی گنجائش ختم ہو چکی ہے۔”
بنیادی وجوہات: بندرگاہوں پر دباؤ اور لاجسٹک بحران
یہ فیصلہ بنیادی طور پر لاجسٹک دباؤ اور انفراسٹرکچر کی ناکافی گنجائش کے سبب کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق:
- پشاور اور کوئٹہ کے اسٹیشنز پر سینکڑوں کنٹینرز کھڑے ہیں، جن کی کلیئرنس ممکن نہیں ہو پا رہی۔
- کراچی میں ساوتھ ایشیا پاکستان ٹرمینل (SAPT) پر ٹی پی کنٹینرز کی طویل قطاریں لگی ہوئی ہیں۔
- سیکڑوں کنٹینرز وہیکل پر لوڈ ہو چکے ہیں لیکن روانگی ممکن نہیں۔
- کنٹینرز کے ڈرائیورز بارڈر کھلنے اور صورتحال بہتر ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔
یہ لاجسٹک چیلنج نہ صرف بندرگاہوں کی کارکردگی کو متاثر کر رہا ہے بلکہ ٹرانسپورٹ کمپنیوں، درآمد کنندگان اور تجارتی شراکت داروں کے لیے بھی خسارے کا سبب بن رہا ہے۔
کسٹمز کی جانب سے جاری کردہ احکامات:
ایف بی آر کی جانب سے جاری کردہ ہدایات میں واضح کیا گیا ہے:
- تمام ٹرمینلز وہ کنٹینرز جو گاڑیوں پر لوڈ ہو چکے ہیں، انہیں آف لوڈ کر دیں۔
- تمام افغان ٹرانزٹ گیٹ پاسز کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔
- افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی تمام ٹرانسپورٹیشن فوری طور پر روک دی جائے۔
- یہ پابندیاں "نئی صورتحال تک” نافذ العمل رہیں گی۔
تجارتی سرگرمیوں پر اثرات
کراچی پورٹ، پورٹ قاسم اور SAPT جیسے ٹرمینلز پر یہ فیصلہ فوراً نافذ کر دیا گیا ہے، جس سے:
افغان درآمد کنندگان شدید متاثر ہوئے ہیں۔
- پاکستانی ٹرانسپورٹ کمپنیاں، کنٹینر سروسز اور کلیئرنگ ایجنٹس کو مالی نقصان کا سامنا ہے۔
- برآمدی نظام میں رکاوٹ سے بندرگاہوں کی ورکنگ ایفیشنسی میں بھی کمی آ رہی ہے۔
- علاقائی سیاق و سباق: سیکیورٹی اور سیاسی تناؤ
یہ فیصلہ صرف لاجسٹک مسئلے کی بنیاد پر نہیں بلکہ علاقائی سیکیورٹی صورتحال بھی اس میں ایک اہم عنصر کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔
- حالیہ دنوں میں افغانستان کی جانب سے بلا اشتعال فائرنگ اور سرحدی کشیدگی کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
- پاکستان نے فضائی وسائل اور ڈرونز کے استعمال کا عندیہ دیا ہے تاکہ سرحدی تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ایک بیان میں کہا کہ:
"پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ کی خبریں سن رہا ہوں، اس معاملے کو بغور دیکھنا ہوگا۔”
یہ سب حالات ظاہر کرتے ہیں کہ صرف تجارتی نہیں بلکہ سفارتی اور سیکیورٹی عوامل بھی ایف بی آر کے حالیہ فیصلے میں شامل ہیں۔
ماہرین کا مؤقف
ماہرین کے مطابق:
یہ فیصلہ عارضی ریلیف فراہم کرنے کے لیے کیا گیا ہے تاکہ کسٹمز اسٹیشنز پر دباؤ کم ہو۔
اگر اس معطلی کا دورانیہ طویل ہوا تو افغانستان کی داخلی سپلائی لائنز متاثر ہوں گی، جس سے سیاسی کشیدگی بڑھنے کا امکان ہے۔
پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ بندرگاہوں کے انفراسٹرکچر کو جدید بنائے تاکہ مستقبل میں ایسے مسائل سے بچا جا سکے۔
مستقبل کے امکانات
یہ سوال ابھی کھلا ہے کہ یہ معطلی کب تک جاری رہے گی۔ اگرچہ "نئی صورتحال تک” کا لفظ استعمال ہوا ہے، لیکن اگر:
- کسٹمز اسٹیشنز پر کنٹینرز کی کلیئرنس تیز نہ ہوئی،
- سرحدی کشیدگی میں کمی نہ آئی،
- اور سیاسی سطح پر اعتماد بحال نہ ہوا،
تو اس بندش کے اثرات صرف پاکستان یا افغانستان تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ خطے کی مجموعی تجارتی فضا کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔
ایک نازک توازن
پاکستان اور افغانستان کے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ ایک معاشی، جغرافیائی اور سیاسی رشتہ ہے۔ ایف بی آر کا حالیہ فیصلہ وقتی طور پر ناگزیر ہو سکتا ہے، لیکن اگر یہ مسئلہ طویل عرصے تک برقرار رہا، تو تجارتی تعلقات میں تناؤ، اسمگلنگ میں اضافہ، اور خطے میں بداعتمادی جنم لے سکتی ہے۔

