ملک میں ہفتہ وار مہنگائی میں اضافہ — مجموعی سالانہ شرح 4.57 فیصد تک جا پہنچی
اسلام آباد: ملک میں ہفتہ وار مہنگائی میں ایک بار پھر اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جس سے عام شہریوں کے گھریلو بجٹ پر مزید دباؤ بڑھ گیا ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق اس ہفتے ملک میں ہفتہ وار مہنگائی کی شرح 0.49 فیصد بڑھی، جبکہ مجموعی سالانہ شرح 4.57 فیصد تک جا پہنچی ہے۔
ادارہ شماریات کی ہفتہ وار رپورٹ
وفاقی ادارہ شماریات نے تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ملک میں ہفتہ وار مہنگائی کے دوران 24 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ، 8 اشیاء کی قیمتوں میں کمی اور 19 اشیاء کی قیمتوں میں استحکام رہا۔
رپورٹ کے مطابق ٹماٹر، پیاز، انڈے اور آٹے کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا جبکہ چکن، کیلے، دالوں اور پیٹرول کی قیمتوں میں معمولی کمی دیکھنے میں آئی۔
مہنگائی کی شرح میں اضافے کی تفصیلات
اعداد و شمار کے مطابق، ایک ہفتے کے دوران ٹماٹر 33.20 فیصد، پیاز 8.70 فیصد، انڈے 2.18 فیصد اور آٹا 1.42 فیصد مہنگا ہوا۔ اسی طرح چینی، گھی، کوکنگ آئل، لہسن اور آلو سمیت دیگر اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
یہ تمام اضافے اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ ملک میں ہفتہ وار مہنگائی کا دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے، خاص طور پر خوراک کی اشیاء میں۔
عوامی مشکلات میں اضافہ
ملک میں ہفتہ وار مہنگائی کے اس اضافے سے عام آدمی کی زندگی مزید متاثر ہو رہی ہے۔ تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے کے باوجود اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں روزانہ بنیاد پر تبدیلی عوامی پریشانی کا باعث بن گئی ہے۔
گھریلو خواتین کا کہنا ہے کہ بازار جانے سے پہلے جو بجٹ بنایا جاتا ہے، وہ اب بمشکل دو دن میں ختم ہو جاتا ہے۔ آٹے، گھی، سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں نے معمولات زندگی کو متاثر کر دیا ہے۔
حکومتی دعوے اور عوامی حقیقت
حکومت کی جانب سے یہ دعوے کیے جا رہے ہیں کہ ملک میں ہفتہ وار مہنگائی پر قابو پایا جا رہا ہے، لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ صارفین کے مطابق ہر ہفتے اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے اور ادارہ شماریات کی رپورٹ بھی یہی ظاہر کرتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے مہنگائی کی مجموعی سالانہ شرح 4.08 فیصد تھی جو اب بڑھ کر 4.57 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی — مگر اثر محدود
رپورٹ کے مطابق اس ہفتے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی ہوئی، تاہم اس کمی کا کوئی خاص اثر اشیائے خوردونوش پر نہیں پڑا۔ ماہرین کے مطابق ٹرانسپورٹ لاگت میں کمی کے باوجود ریٹیل سطح پر اشیاء کی قیمتیں کم نہیں ہو رہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں ہفتہ وار مہنگائی کا تعلق صرف ایندھن سے نہیں بلکہ مجموعی سپلائی چین سے بھی ہے۔
ماہرین معیشت کی رائے
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں ہفتہ وار مہنگائی کی بنیادی وجہ درآمدی اخراجات، روپے کی قدر میں کمی، اور ٹرانسپورٹ لاگت میں اضافہ ہے۔ ان کے مطابق حکومت کو چاہیے کہ مارکیٹ میں مڈل مین کے کردار کو کم کرے تاکہ صارفین کو حقیقی فائدہ مل سکے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر موجودہ رجحان برقرار رہا تو اگلے چند ہفتوں میں ملک میں ہفتہ وار مہنگائی 6 فیصد سے تجاوز کر سکتی ہے۔
کم آمدنی والے طبقے پر بوجھ
کم آمدنی والے طبقے کے لیے ملک میں ہفتہ وار مہنگائی کا یہ اضافہ سب سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ تنخواہیں جمود کا شکار ہیں جبکہ روزمرہ کے اخراجات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ عام شہری اب خوراک میں کٹوتی کرنے پر مجبور ہیں۔
بازاروں میں صارفین کا کہنا ہے کہ وہ پہلے جیسی خریداری نہیں کر سکتے۔ ایک متوسط طبقے کے شہری نے بتایا کہ پہلے ہفتے بھر کے لیے سبزیاں اور پھل خرید لیتے تھے، اب صرف ایک دن کا راشن ہی لیا جا سکتا ہے۔
حکومت کی ممکنہ حکمتِ عملی
ذرائع کے مطابق حکومت آئندہ ہفتے ملک میں ہفتہ وار مہنگائی کو قابو میں رکھنے کے لیے ضلعی انتظامیہ کو سخت اقدامات کی ہدایت دینے جا رہی ہے۔ ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشوں کے خلاف کارروائی کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی جا رہی ہیں۔
مزید یہ کہ وزارتِ خزانہ نے آئندہ بجٹ میں قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لیے سبسڈی پروگرام پر بھی غور شروع کر دیا ہے۔
مستقبل کی صورتحال
اگر عالمی منڈی میں تیل، خوراک اور دیگر اشیاء کی قیمتیں مستحکم رہتی ہیں تو ممکن ہے کہ آئندہ مہینوں میں ملک میں ہفتہ وار مہنگائی میں معمولی کمی واقع ہو۔ تاہم اگر روپے کی قدر میں مزید گراوٹ یا درآمدی اخراجات میں اضافہ ہوا تو صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔
ملک میں مہنگائی میں کمی عوام کے لیے خوشخبری
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ملک میں ہفتہ وار مہنگائی کا رجحان کم ہونے کے بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔ عام شہریوں کی قوتِ خرید مسلسل گھٹ رہی ہے اور ضروری اشیاء کی قیمتوں میں استحکام نظر نہیں آ رہا۔
حکومت کو چاہیے کہ صرف اعداد و شمار پر انحصار کرنے کے بجائے عملی سطح پر اقدامات کرے تاکہ ملک میں ہفتہ وار مہنگائی کو کنٹرول کیا جا سکے اور عوام کو ریلیف فراہم کیا جا سکے۔