کولمبیا کے صدر کا امریکی حملے پراحتجاج — علاقائی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار
بوگوٹا (رأیس الاخبار ) :— کولمبیا اور امریکہ کے تعلقات میں ایک نیا بحران اُس وقت جنم لے چکا ہے جب کولمبیا کے صدر گستاوو پیٹرو نے امریکی فوج کی جانب سے کولمبیا کی علاقائی حدود میں مبینہ حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے “قتل اور ریاستی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی” قرار دیا ہے۔
یہ واقعہ اُس وقت منظر عام پر آیا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اعلان کیا کہ امریکی فوج نے ایک “منشیات بردار آبدوز” کو تباہ کر دیا ہے جو مبینہ طور پر امریکہ کی سمت بڑھ رہی تھی۔
تاہم کولمبیا کا کہنا ہے کہ جسے امریکی فوج نے نشانہ بنایا، وہ دراصل ایک عام ماہی گیری کشتی تھی جس کا کسی بھی قسم کی مجرمانہ سرگرمی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
امریکی فوج کی کارروائی — ایک ماہی گیر کی ہلاکت
تفصیلات کے مطابق، امریکی نیوی کے طیارے نے کولمبیا کے ساحلی پانیوں میں ایک چھوٹی کشتی پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں مقامی ماہی گیر الیخاندرو کارانزا موقع پر ہلاک ہو گیا۔
کولمبیا کے صدر پیٹرو نے اپنے بیان میں کہا:
“امریکی حکومت کے نمائندوں نے ہمارے علاقائی پانیوں میں قتل کا ارتکاب کیا ہے۔ یہ عمل ناقابلِ قبول ہے اور کولمبیا کی خودمختاری پر حملہ ہے۔”
کولمبیا کے صدر کا امریکی حملے پراحتجاج حملے کو کولمبیا کی علاقائی سالمیت اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے امریکہ سے فوری وضاحت کا مطالبہ کیا۔
صدر پیٹرو کا سخت مؤقف
گستاوو پیٹرو، جو خود ایک سابق انقلابی رہنما اور سماجی انصاف کے حامی صدر کے طور پر جانے جاتے ہیں، نے اس واقعے پر انتہائی سخت مؤقف اپنایا۔
انہوں نے کہا کہ کولمبیا کسی بھی قیمت پر اپنے شہریوں کے خلاف غیر قانونی فوجی کارروائی برداشت نہیں کرے گا۔
“یہ حملہ صرف ایک شخص کی جان نہیں لے گیا بلکہ اس نے ہماری خودمختاری کو مجروح کیا ہے۔ کولمبیا ایک آزاد ریاست ہے، کوئی کالونی نہیں۔”
صدر نے مزید کہا کہ کولمبیا کے عوام کو کسی بیرونی طاقت کی "غلط انٹیلی جنس” یا "فوجی جوش” کی قیمت نہیں چکانی چاہیے۔
ماہی گیر کا پس منظر
ہلاک ہونے والے ماہی گیر الیخاندرو کارانزا کے بارے میں کولمبیا کے مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ ایک محنت کش، غیر سیاسی اور سمندر سے روزی کمانے والا شخص تھا۔
اس کے اہلِ خانہ کے مطابق،
“الیخاندرو کا منشیات کی اسمگلنگ سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ وہ ہمیشہ اپنی کشتی پر مچھلی پکڑتا اور مقامی مارکیٹ میں فروخت کرتا تھا۔”
کولمبیا کے صدر نے متاثرہ خاندان سے اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کے دفتر کو ہدایت کی کہ وہ متاثرہ خاندان کو قانونی تحفظ اور انصاف فراہم کرے۔
بین الاقوامی عدالتی کارروائی پر غور
کولمبیا کے صدر کا امریکی حملے پراحتجاج کہا کہ ان کی حکومت بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) اور دیگر عالمی اداروں سے رجوع کرنے پر غور کر رہی ہے تاکہ امریکی فوجی کارروائی کا قانونی احتساب کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا:
“اگر کسی ملک کی فوج ہماری حدود میں داخل ہو کر قتل کرتی ہے، تو یہ صرف اخلاقی جرم نہیں بلکہ بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔”
کولمبیا کی وزارتِ خارجہ نے بھی اس معاملے پر امریکہ سے باضابطہ احتجاج درج کروانے کے لیے واشنگٹن میں متعین سفیر کو ہدایات جاری کر دی ہیں۔
امریکی مؤقف — “منشیات بردار آبدوز”
دوسری جانب، واشنگٹن سے جاری بیان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ
“ہم نے ایک خطرناک منشیات بردار آبدوز کو تباہ کر دیا ہے جو امریکا کی طرف بڑھ رہی تھی۔ یہ کارروائی ہمارے قومی مفاد کے تحفظ کے لیے ضروری تھی۔”
تاہم امریکی محکمۂ دفاع نے ابھی تک اس واقعے کے مقام، وقت، یا ہلاک شدہ افراد کی شناخت کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ کارروائی انٹیلی جنس اطلاعات کی بنیاد پر کی گئی تھی، جن کے مطابق آبدوز کولمبیا کے پانیوں میں غیر قانونی طور پر منشیات منتقل کر رہی تھی۔
کولمبیا کا ردِعمل — “جھوٹ پر مبنی دعویٰ”
کولمبیا کے صدر کا امریکی حملے پراحتجاج، امریکی بیان کو “جھوٹ پر مبنی دعویٰ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ
“امریکہ کو پہلے ثابت کرنا ہوگا کہ یہ آبدوز تھی۔ ہمارے ماہی گیر کے پاس کوئی ہتھیار، کوئی منشیات، کوئی ممنوعہ سامان نہیں تھا۔ صرف جال اور مچھلی تھی۔”
کولمبیا کے سیکیورٹی ذرائع نے بھی امریکی بیانیے کی تردید کی ہے اور بتایا ہے کہ جائے وقوعہ سے کوئی منشیات یا اسلحہ برآمد نہیں ہوا۔
علاقائی خودمختاری کا مسئلہ — لاطینی امریکہ کی پرانی بحث
یہ پہلا موقع نہیں جب لاطینی امریکی ممالک نے امریکی فوجی کارروائیوں پر اعتراض کیا ہو۔
گزشتہ دہائی میں وینزویلا، نکاراگوا، بولیویا اور ایکواڈور بھی متعدد بار امریکہ پر اندرونی معاملات میں مداخلت کا الزام لگا چکے ہیں۔
ماہرین کے مطابق، موجودہ کولمبیا کے صدر کا امریکی حملے پراحتجاج امریکہ-لاطینی تعلقات میں بڑھتی ہوئی بے اعتمادی کی عکاسی کرتا ہے۔
یمنی چیف آف اسٹاف عبدالکریم الغماری اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاک، حوثیوں کی تصدیق
بین الاقوامی ردِعمل
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے بھی کولمبیا کے صدر کا امریکی حملے پراحتجاج کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر واقعی امریکی کارروائی کولمبیا کی حدود میں ہوئی ہے تو یہ بین الاقوامی قانون کے آرٹیکل 2(4) کی خلاف ورزی ہوگی جو کسی خودمختار ملک کے خلاف طاقت کے استعمال کو ممنوع قرار دیتا ہے۔
یورپی یونین کے نمائندہ برائے خارجہ امور جوزپ بوریل نے بھی کہا ہے کہ “ایسے واقعات خطے میں امن و استحکام کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور دونوں ممالک کو سفارتی راستے سے مسئلہ حل کرنا چاہیے۔”
عوامی ردِعمل اور میڈیا میں ہلچل
کولمبیا کے اندر اس واقعے نے شدید عوامی غم و غصہ پیدا کر دیا ہے۔
دارالحکومت بوگوٹا اور ساحلی علاقوں میں عوامی مظاہرے کیے جا رہے ہیں جن میں امریکی فوجی موجودگی کے خلاف نعرے لگائے جا رہے ہیں۔
مظاہرین کے بینرز پر لکھا تھا:
“ہم غلام نہیں، آزاد قوم ہیں”
“الیخاندرو کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لاؤ”
کولمبیا کے مقامی میڈیا نے امریکی موقف پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ اگر امریکی فوج کو یقین تھا کہ وہ آبدوز ہے، تو بین الاقوامی سمندری قوانین کے تحت پہلے کولمبیا کو آگاہ کیوں نہیں کیا گیا؟
سیاسی ماہرین کی رائے
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، کولمبیا کے صدر کا امریکی حملے پراحتجاج اور جارحانہ ردعمل کولمبیا کی نئی خارجہ پالیسی کا مظہر ہے جو امریکہ کے اثر سے خودمختاری کی طرف بڑھنا چاہتی ہے۔
بوگوٹا یونیورسٹی کے پروفیسر مینوئل روئیز کے مطابق:
“پیٹرو کی حکومت واضح پیغام دینا چاہتی ہے کہ کولمبیا اب امریکہ کا عسکری اڈہ نہیں بلکہ ایک خودمختار ملک ہے جو اپنے فیصلے خود کرے گا۔”
ممکنہ سفارتی بحران
سیاسی مبصرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر امریکہ نے اس معاملے پر تسلی بخش وضاحت نہ دی تو دونوں ممالک کے تعلقات میں سنگین سفارتی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
کولمبیا، جو امریکہ کا انسدادِ منشیات جنگ میں قریبی اتحادی رہا ہے، ممکنہ طور پر اب اپنے سیکیورٹی تعلقات پر نظرِ ثانی کر سکتا ہے۔
ایک ماہی گیر کی ہلاکت، دو ممالک کی سردمہری(US strike in Colombian)
الیخاندرو کارانزا کی موت اب کولمبیا میں ایک قومی علامت بن چکی ہے — وہ علامت جو عام شہری کے حقوق، ریاستی خودمختاری، اور عالمی طاقتوں کے رویوں پر سوال اٹھاتی ہے۔
کولمبیا کے صدر گستاوو پیٹرو کا دوٹوک مؤقف یہ ظاہر کرتا ہے کہ لاطینی امریکہ کی حکومتیں اب اپنے عوامی وقار کے لیے آواز اٹھانے میں مزید جھجک محسوس نہیں کر رہیں۔
Comments 2