اسرائیل کے غزہ میں فضائی حملے: غزہ میں جنگ بندی خطرے میں، 38 فلسطینی شہید — اسرائیلی الزام، حماس کی تردید
غزہ (رائیس الاخبار) — اسرائیلی فوج نے وسطی اور جنوبی غزہ میں ہلاکت خیز فضائی حملوں کا نیا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ یہ کارروائیاں حماس کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے بعد کی گئی ہیں، تاہم حماس نے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل خود معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق تازہ فضائی بمباری میں 38 فلسطینی شہید اور 143 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ حملوں کے بعد غزہ میں انسانی بحران مزید سنگین ہو گیا ہے کیونکہ اسرائیل نے امدادی قافلوں کی گزرگاہیں بند کر دی ہیں اور رفح کراسنگ تاحکمِ ثانی بند کر دی گئی ہے۔
جنگ بندی خطرے میں — "امیدیں دم توڑنے لگیں”
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ اتوار کو ہونے والی یہ کارروائیاں دراصل حماس کے حملوں کے جواب میں کی گئیں۔ یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب امریکہ کی ثالثی میں ہونے والی ایک ہفتے پرانی جنگ بندی کو مستقل امن میں بدلنے کی امیدیں پیدا ہو رہی تھیں۔
تاہم تازہاسرائیل کے غزہ میں فضائی حملے نے ان امیدوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ واشنگٹن اور قاہرہ میں سفارتی ذرائع کے مطابق "اگر جنگ بندی ناکام ہوئی تو پورے خطے میں کشیدگی ایک بار پھر بھڑک سکتی ہے۔”
اسرائیلی فوج کے الزامات
اسرائیلی فوج کے ترجمان نے اتوار کو بیان دیا کہ حماس نے "غزہ کے اندر اسرائیلی فورسز پر متعدد حملے کیے ہیں”، جن میں ایک راکٹ اور ایک اسنائپر حملہ شامل تھا۔
ترجمان کے مطابق یہ حملے "اسرائیلی زیر قبضہ علاقے” میں ہوئے اور "یہ جنگ بندی کی واضح خلاف ورزی ہے”۔
انہوں نے مزید کہا کہ "فوجی قیادت نے اپنے دفاع میں کارروائی کی، اور مستقبل میں ایسے کسی بھی خطرے کو سخت جواب دیا جائے گا۔”
حماس کا ردعمل — "الزام جھوٹا ہے”
حماس کے سینئر رہنما عزت الرشق نے ان الزامات کو "جھوٹا اور گمراہ کن” قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ "حماس جنگ بندی کے معاہدے پر مکمل طور پر قائم ہے اور اس کی خلاف ورزی کا مرتکب اسرائیل خود ہے، جو وقفے وقفے سے بمباری کر کے معاہدے کو سبوتاژ کر رہا ہے۔”
غزہ کے سرکاری میڈیا دفتر نے ہفتے کے روز دعویٰ کیا تھا کہ "جنگ بندی معاہدے کے بعد سے اسرائیل نے کم از کم 47 خلاف ورزیاں کی ہیں، جن میں 38 فلسطینی شہید اور 143 زخمی ہوئے ہیں۔”
امدادی قافلے روک دیے گئے
الجزیرہ کے مطابق، اسرائیلی حکام نے امدادی قافلوں کے داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔ رفح بارڈر، جو مصر اور غزہ کے درمیان واحد گزرگاہ ہے، "تاحکمِ ثانی بند” کر دیا گیا ہے۔
ایک اسرائیلی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ "غزہ کی پٹی میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی ترسیل حماس کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد اگلے حکم تک روک دی گئی ہے۔”
اقوامِ متحدہ کے ترجمان نے اس فیصلے پر "شدید تشویش” کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "غزہ میں انسانی بحران اب ناقابلِ برداشت سطح پر پہنچ چکا ہے۔ اگر امداد نہ پہنچی تو قحط کا خطرہ بڑھ جائے گا۔”
اسرائیلی وزراء کے سخت بیانات
الجزیرہ کے مطابق، اسرائیلی وزراء کے حالیہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اندرونی طور پر بھی جنگ بندی کے مستقبل پر منقسم ہے۔
بیرونِ ملک یہودی برادری کے امور کے وزیر امیچائی چکلی نے کہا:
"جب تک حماس موجود ہے، جنگ جاری رہے گی۔ اسرائیل حماس کو مکمل طور پر ختم کیے بغیر پیچھے نہیں ہٹے گا۔”
اسی طرح کابینہ کے رکن آوی دختر نے صورتحال کو "مشکل اور پیچیدہ” قرار دیتے ہوئے کہا:
"حماس نے یہ مفروضہ قائم کیا کہ اسرائیل دوبارہ لڑائی شروع نہیں کرے گا، لیکن جیسے ہی ہمارے تمام زندہ یرغمالی واپس آجائیں گے، حالات تبدیل ہو جائیں گے۔”
حماس کا وفد قاہرہ پہنچ گیا
دوسری جانب، حماس کا ایک اعلیٰ سطحی وفد قاہرہ پہنچ گیا ہے۔ وفد کی قیادت خلیل الحیہ کر رہے ہیں، جو تنظیم کے سیاسی بیورو کے سینئر رکن ہیں۔
تنظیم کے ترجمان کے مطابق،
"وفد کا مقصد جنگ بندی کے نفاذ، اس کی خلاف ورزیوں کے تدارک، اور فلسطینی دھڑوں کے درمیان ہم آہنگی پر بات چیت کرنا ہے۔”
مصری ذرائع کے مطابق مذاکرات میں قطر اور اقوام متحدہ کے نمائندے بھی شریک ہوں گے۔
ایک اور یرغمالی کی لاش کی شناخت
اسرائیلی حکام نے حماس کی جانب سے حال ہی میں حوالے کی گئی ایک اور یرغمالی کی لاش کی شناخت رونن اینجل کے نام سے کی ہے۔
ان کے اہلِ خانہ کے مطابق رونن اینجل کو 7 اکتوبر 2023 کے حملے کے دوران اہلیہ اور بیٹی کے ساتھ اغوا کیا گیا تھا۔
اسرائیلی فوج نے بتایا کہ وہ "اسی دن ہلاک ہو گئے تھے”۔
ان کی بیٹی میکا اینجل نے انسٹاگرام پر لکھا:
"میرے والد 744 دنوں کے بعد بالآخر گھر واپس آگئے۔”
اسرائیل کے غزہ میں فضائی حملے ،عالمی ردِ عمل اور سفارتی دباؤ
امریکی محکمۂ خارجہ نے اسرائیل اور حماس دونوں پر زور دیا ہے کہ "وہ جنگ بندی معاہدے کی پاسداری کریں اور عام شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں”۔
یورپی یونین نے بھی اسرائیل کے غزہ میں فضائی حملے کو "انتہائی افسوسناک” قرار دیتے ہوئے کہا کہ "انسانی جانوں کا ضیاع کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں۔”
عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل احمد ابوالغیط نے کہا کہ ” مسلسل اسرائیل کے غزہ میں فضائی حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ امن کے عمل کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہے۔”
امن یا نیا تصادم؟
ماہرین کے مطابق موجودہ صورتحال ایک نئے تصادم کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر جنگ بندی ٹوٹ گئی تو خطہ ایک بار پھر مکمل جنگ کے دہانے پر پہنچ سکتا ہے۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار ڈاکٹر مصطفیٰ البرغوثی کے مطابق:
"غزہ میں امن کی کوئی ضمانت نہیں۔ اسرائیل مسلسل دباؤ ڈال کر حماس کو کمزور کرنا چاہتا ہے، جبکہ حماس سیاسی طور پر اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔”
انہوں نے کہا کہ "جنگ بندی کو برقرار رکھنے کے لیے امریکا اور مصر کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا، ورنہ ایک نیا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔”
غزہ میں تازہ اسرائیل کے غزہ میں فضائی حملے(israel airstrike gaza after ceasefire) نے امن کی کوششوں کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ دونوں فریق ایک دوسرے پر خلاف ورزیوں کے الزامات لگا رہے ہیں، جبکہ بے گناہ شہری ایک بار پھر جنگ کی بھٹی میں جھونکے جا رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فوری طور پر جنگ بندی بحال نہ ہوئی تو غزہ ایک بار پھر مکمل تباہی کے دہانے پر پہنچ سکتا ہے — جہاں نہ امن باقی رہے گا، نہ زندگی۔
⚡️BREAKING
ISRAEL AND THE US HAVE VIOLATED THE CEASEFIRE
Continuous Israeli airstrikes east of Khan Younis in the southern Gaza Strip. pic.twitter.com/iahngisG2n
— Warfare Analysis (@warfareanalysis) October 19, 2025
Comments 1