اس وقت وسطِ مشرق میں ایک نازک مرحلہ جاری ہے۔ غزہ جنگ کے بعد اب حماس اور غزہ پٹی میں پھیلتی انسانی اور سیاسی مشکلات کے بیچ، ایک اہم معاہدہ سامنے آیا تھا جسے “غزہ امن معاہدہ” کا نام دیا گیا۔ اس معاہدے کا بنیادی مقصد جنگ بندی، انسانی امداد کی رسائی اور کشیدگی کم کرنا تھا۔ اب جب یہ غزہ امن معاہدہ خطرے میں پڑنے کی اطلاع مل رہی ہے، تو اسرائیل اور حماس کے بیچ فریقین کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے، اور امریکی قیادت نے مداخلت کا فیصلہ کیا ہے۔
امریکی وفد کی روانگی
امریکی نائب صدر جے ڈی وینس، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور مشرقِ وسطیٰ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف ایک ہنگامی مشن پر اسرائیل روانہ ہو گئے ہیں۔ ان کا بنیادی ہدف یہ ہے کہ غزہ امن معاہدہ کی روح اور شقوں کو مکمل طور پر نافذ کیا جائے، اور فریقین کے بیچ مزید مشکلات پیدا نہ ہونے پائیں۔
غزہ امن معاہدہ کی بنیاد
غزہ امن معاہدہ وہ پرتکلف معاہدہ ہے جسے متعدد ثالثوں — مصری حکام، قطر، امریکہ — نے ترتیب دیا تھا تاکہ غزہ میں جاری جنگ بندی کی صورتحال کو پائیدار بنانے کی راہ ہموار ہو سکے۔ اس کے تحت چند بنیادی نکات تھے:

- دونوں طرف سے فوجی کارروائیوں میں کمی۔
- انسانی امداد کی رسائی، اور رکاوٹوں کا خاتمہ۔
- قیدیوں اور اس شہروں کی ڈیڈ باڈیز کی واپسی، معاہدے کی ایک اہم شق تھی۔
- معاہدے کے نفاذ کے بعد، مستقبل میں طویل المدت حل کی راہ ہموار کرنا۔
یہی وجہ ہے کہ امریکی وفد کی روانگی کے موقع پر بار بار کہا گیا کہ غزہ امن معاہدہ “۱۰۰ فیصد کامیاب” ہونا چاہیے، اور ناکامی کا متحمل نہیں ہو سکتے، جیسا کہ جیرڈ کشنر نے بیان کیا۔
موجودہ کشیدگی اور خطرات
اگرچہ معاہدے کے تحت سیز فائر عمل میں آیا، مگر پھر بھی حملے جاری رہے۔ اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ دوبارہ سیز فائر نفاذ پر عمل شروع کیا جا رہا ہے، تاہم معاہدے کے باوجود اب تک فلسطینی جانب سے متعدد شہید ہوئے ہیں۔ یہ صورتحال بتاتی ہے کہ غزہ امن معاہدہ ابھی مکمل طور پر ٹھوس نہیں ہوا، اور دونوں طرف سے چیلنجز موجود ہیں۔
اس پس منظر میں امریکی وفد کی اسرائیل روانگی ایک واضح اشارہ ہے کہ واشنگٹن اب اس معاہدے کو ناکام ہونے نہیں دے گا۔

امریکی وفد کا مقصد اور حکمتِ عملی
امریکی وفد کا مقصد چند واضح نکات پر مشتمل ہے:
- معاہدے کا مکمل نفاذ — یہ نہ صرف جنگ بندی کا مرحلہ ہے بلکہ معاہدے کی شقوں کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ یعنی، جتنا ممکن ہو معاہدے کے تحت طے شدہ اقدامات کو زمین پر لایا جائے۔
- کشیدگی کی کمی — فریقین کے درمیان اعتماد بحال کرنا، اشتعال انگیزی کو کم کرنا، اور ممکنہ فوجی کارروائیوں کے امکانات کو محدود کرنا۔
- ثالثانہ کردار کو مضبوط کرنا — امریکی قیادت اس بات پر زور دے رہی ہے کہ اگر وہ اس مرحلے میں مداخلت نہ کرتی، تو معاہدے کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
- انسانی امداد کی بحالی — معاہدے کے تحت امدادی رسائی کا بھی اہم حصہ ہے، جو جنگ زدہ غزہ پٹی میں انسانی بحران کو کم کرنے کیلئے ضروری ہے۔
ان تمام نکات کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ غزہ امن معاہدہ کی کامیابی صرف جنگ بندی تک محدود نہیں بلکہ اس کے بعد کے عملی اقدامات پر منحصر ہے۔
ممکن چیلنجز
معاہدے پر عمل درآمد کی دشواریاں
غزہ امن معاہدہ کا جو حصہ ابھی بھی نازک ہے وہ عمل درآمد ہے۔ فریقین کے بیچ اعتماد کا فقدان، ماضی کی کارروائیوں کا اثر، اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات، سب اس امر کو دشوار بناتے ہیں کہ معاہدے کی شقیں بروقت اور مؤثر طریقے سے نافذ ہوں۔
دونوں طرف سے مخالفت اور شکایات
- اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس نے اپنے وعدوں پر مکمل عمل نہیں کیا۔
- حماس کا موقف ہے کہ معاہدے کی شرائط میں ایک طویل المدتی سیاسی حل کا ذکر ہونا چاہیے، نہ صرف وقتی جنگ بندی۔
ان نکات سے یہ واضح ہے کہ غزہ امن معاہدہ کو صرف “وقفے” کے بجائے مستقبل کی سمت میں بھی دیکھنا پڑے گا۔
انسانی بحران کا تسلسل
غزہ پٹی میں انسانی حالت بگڑی ہوئی ہے — امداد نہ پہنچنا، مواصلاتی راستوں کی بندش اور شہریوں کی جان و مال کا نقصان جاری ہے۔ معاہدے کے تحت امدادی رسائی ایک اہم شق تھی، مگر اس پر ابھی بھی عمل درآمد کی رفتار کافی نہیں ہے۔
امریکی داخلہ کی اہمیت
امریکی مداخلت، یعنی وفد کی اسرائیل رفتاری، اس بات کی دلیل ہے کہ واشنگٹن نے معاہدے کو “کامیاب یا ناکام” کے مقام پر دیکھا ہے۔ اگر غزہ امن معاہدہ کامیاب نہ ہوا، تو یہ نہ صرف اس جنگ زدہ خطے بلکہ عالمی سطح پر امریکی وسطی مشرقی پالیسی کو بھی متاثر کندے گا۔
وہی وجہ ہے کہ جیرڈ کشنر نے روانگی سے قبل کہا:
“حماس اپنے وعدوں پر عمل کر رہی ہے، غزہ امن معاہدہ 100 فیصد کامیاب ہوگا، ہم اس کی ناکامی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔”
یہ بیان خود اس معاہدے کی نازکی اور حساسیت کا اشارہ ہے۔
آگے کی راہ اور ممکن نتائج
- اگر غزہ امن معاہدہ مکمل ہو گیا، تو یہ خطے میں ایک مثالی مثال بن سکتا ہے کہ کیسے جنگ زدہ خطے میں ثالثی، انسانی امداد اور سیاسی مذاکرات کے ذریعے امن ممکن ہے۔
- تاہم، اگر یہ معاہدہ ختم ہو گیا یا نظر انداز ہو گیا، تو دوبارہ جنگ کی راہ کھل سکتی ہے، فریقین کی کشیدگی شدت اختیار کرے گی، اور انسانی بحران مزید گہرا ہوگا۔
- امریکی وفد کی کامیابی یا ناکامی اس بات کا تعین کرے گی کہ آیا مستقبل میں اس طرح کی ثالثی کوششیں زیادہ مؤثر ہو سکیں گی یا نہیں۔
اسرائیل کے غزہ میں فضائی حملے، مسلسل بمباری، امداد کا داخلہ روک دیا، 38 فلسطینی شہید
غزہ امن معاہدہ ایک نہایت نازک مگر اہم مرحلے میں ہے۔ اس معاہدے کی کامیابی فقط فریقین کے مابین جنگ بندی کا سوال نہیں بلکہ انسانی امداد، قیدیوں کی واپسی، اعتماد کی بحالی اور مستقبل کی سمت کا سوال بھی ہے۔ امریکی وفد کی اسرائیل روانگی اس نکتہ کی نشاندہی کرتی ہے کہ معاہدے کو “صرف کاغذ” پر نہیں بلکہ حقیقی زندگی میں نافذ کرنا ہے۔ اس وقت یہ کہنا چاہیے کہ، اگر غزہ امن معاہدہ کامیاب ہوا، تو خطے کے لیے ایک امید کی کرن بنے گا؛ اور اگر ناکام ہوا، تو نتائج انسانی، سیاسی اور بین الاقوامی سطح پر گہرے ہوں گے۔
Comments 1