طورخم تجارتی گزرگاہ بندش سے اربوں روپے کا نقصان، تجارت مکمل طور پر معطل
طورخم تجارتی گزرگاہ بندش – 25 ویں روز بھی خاموشی، اربوں کا نقصان
پاک افغان سرحد پر واقع طورخم تجارتی گزرگاہ بندش آج پچیسویں روز میں داخل ہوگئی ہے۔ اس بندش کے باعث دونوں ممالک کے درمیان تجارت مکمل طور پر معطل ہے، جب کہ ہزاروں کارگو گاڑیاں راستے میں پھنسی ہوئی ہیں۔ تجارتی سرگرمیوں کی معطلی سے تاجروں، برآمد کنندگان، اور قومی خزانے کو شدید مالی نقصان پہنچ رہا ہے۔

دوطرفہ تجارت کی بندش اور اثرات
کسٹمز ذرائع کے مطابق، طورخم کے مقام پر تجارتی آمد و رفت تقریباً ایک ماہ سے رکی ہوئی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر افغانستان کے لیے سیمنٹ، کپڑا، ادویات، سبزیاں اور پھل برآمد کیے جاتے تھے، جب کہ افغانستان سے کوئلہ، سوپ اسٹون اور خشک میوہ جات پاکستان درآمد ہوتے تھے۔
اب طورخم تجارتی گزرگاہ بندش کے باعث نہ صرف برآمد کنندگان بلکہ درآمد کنندگان بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ سیکڑوں کنٹینر خیبر پختونخوا کے مختلف مقامات پر رکے ہوئے ہیں۔
قومی معیشت پر اثر
ذرائع کے مطابق، طورخم سے یومیہ تقریباً 85 کروڑ روپے کی دوطرفہ تجارت ہوتی تھی، جس میں 58 کروڑ روپے کی ایکسپورٹ اور 25 کروڑ روپے کی امپورٹ شامل تھی۔ پاک افغان تجارت سے قومی خزانے کو اوسطاً یومیہ 5 کروڑ روپے حاصل ہوتے تھے۔ تاہم، طورخم تجارتی گزرگاہ بندش کے باعث یہ آمدنی مکمل طور پر رک چکی ہے۔
ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے کہ اگر بندش مزید برقرار رہی تو صرف نومبر کے مہینے میں پاکستان کو اربوں روپے کا نقصان پہنچ سکتا ہے۔
کسٹمز ذرائع کی تفصیلات
کسٹمز حکام نے بتایا کہ کارگو گاڑیوں کی لمبی قطاریں خیبر ایجنسی کے مختلف مقامات پر موجود ہیں۔ امپورٹ، ایکسپورٹ اور ٹرانزٹ ٹریڈ کی ہزاروں گاڑیاں تاحال کلیئرنس کی منتظر ہیں۔ ٹرانسپورٹرز کے مطابق، گاڑیوں کے مالکان کو روزانہ کے اخراجات، کرایہ اور ایندھن کے باعث بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
تاجر برادری کا احتجاج
تاجر تنظیموں نے طورخم تجارتی گزرگاہ بندش پر شدید احتجاج کیا ہے۔ پشاور چیمبر آف کامرس کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ بندش سے صرف تاجر نہیں بلکہ مزدور طبقہ بھی متاثر ہو رہا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں مزدور بیروزگار ہو چکے ہیں۔

تاجروں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر مذاکرات کے ذریعے تجارتی گزرگاہ کو کھولا جائے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر آ سکیں۔
افغان حکومت کا موقف
افغان حکام کے مطابق، سرحد بندش کا سبب بعض حفاظتی اور انتظامی خدشات ہیں۔ کابل حکومت نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ رابطے میں ہے اور جلد دونوں ممالک کے مابین ٹریڈ بحال ہو سکتی ہے۔
انسانی پہلو
طورخم کے راستے روزانہ ہزاروں افراد آمد و رفت کرتے تھے۔ ان میں تاجروں کے علاوہ عام شہری، طلبہ اور مریض بھی شامل ہیں۔ بندش کے باعث لوگوں کو طویل انتظار اور مشکلات کا سامنا ہے۔
امیگریشن ذرائع کے مطابق، غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغان شہریوں کی وطن واپسی کا سلسلہ جاری ہے اور اسی مقصد کے لیے تین روز قبل طورخم سرحد کو محدود طور پر کھولا گیا تھا۔ تاہم تجارتی سرگرمیاں بدستور معطل ہیں۔
ماہرین کی آراء
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طورخم تجارتی گزرگاہ بندش کا اثر صرف پاکستان پر نہیں بلکہ افغانستان کی معیشت پر بھی گہرا ہے۔ افغان تاجروں کے لیے درآمدی سامان کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے جبکہ کئی برآمد کنندگان کا کاروبار ٹھپ ہو چکا ہے۔
ماہرین کے مطابق، دونوں ممالک کے درمیان مستقل تجارتی پالیسی اور رابطہ کمیٹی کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں اس طرح کی بندشوں سے بچا جا سکے۔
تاریخی پس منظر
طورخم سرحد پاک افغان تجارت کا سب سے اہم راستہ ہے جو روزانہ سینکڑوں ٹرکوں کے گزرنے سے اقتصادی سرگرمیوں کا محور رہا ہے۔ ماضی میں بھی سیکیورٹی یا سیاسی وجوہات کے باعث یہ راستہ عارضی طور پر بند ہوتا رہا ہے لیکن اتنی طویل بندش شاذ و نادر ہی دیکھی گئی ہے۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت تجارت، خارجہ اور داخلہ کے نمائندے افغان حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ توقع ہے کہ آئندہ چند روز میں طورخم تجارتی گزرگاہ بندش ختم کر کے مرحلہ وار ٹریڈ بحال کر دی جائے گی۔
طورخم بارڈر جلد آمدورفت کیلئے کھولنے کی تیاری شروع
طورخم سرحد کی بندش نہ صرف دو ممالک کی معیشت بلکہ عوامی سطح پر بھی مشکلات کا باعث بنی ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک تعاون اور مکالمے کے ذریعے اس بندش کو ختم کریں تاکہ پاک افغان تعلقات استحکام کی جانب بڑھ سکیں۔









