استنبول مذاکرات بے نتیجہ، طالبان وعدوں کی پاسداری میں ناکام
پاکستان و افغانستان مذاکرات: ڈیڈلاک، ذمہ داریاں اور علاقائی امن کا مستقبل
پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ مذاکرات، جو ترکیہ کے شہر استنبول میں جاری ہیں، ایک بار پھر تعطل کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ نے اپنے تازہ بیان میں واضح کیا ہے کہ مذاکرات میں اب تک کوئی بریک تھرو سامنے نہیں آیا، تاہم پاکستان نے ثالثی کے کردار پر ترکیہ اور قطر کا شکریہ ادا کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنے اصولی مؤقف پر قائم ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے، اور اس ذمہ داری کا بوجھ براہِ راست افغان طالبان حکومت پر عائد ہوتا ہے۔
عطااللہ تارڑ کے مطابق پاکستان نے ہمیشہ افغان عوام کے ساتھ خیر سگالی کا مظاہرہ کیا ہے اور وہ افغانستان میں امن و استحکام کا خواہش مند ہے۔ تاہم، اگر طالبان حکومت ایسے اقدامات کرے جو نہ صرف افغان عوام بلکہ خطے کے مفاد کے منافی ہوں تو پاکستان ان کی حمایت نہیں کرے گا۔ پاکستان اپنے عوام اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانے کے لیے پُرعزم ہے۔
دفترِ خارجہ کے ترجمان طاہر اندرابی نے ہفتہ وار بریفنگ میں بتایا کہ استنبول مذاکرات تاحال ثالثی ممالک کی نگرانی میں جاری ہیں اور پاکستان ان کی کامیابی کے لیے پُرامید ہے۔ ترجمان نے کہا کہ مذاکراتی عمل کی سربراہی قومی سلامتی کے مشیر عاصم ملک کر رہے ہیں جبکہ ایڈیشنل فارن سیکریٹری بھی وفد میں شامل ہیں۔ پاکستانی وفد نے طالبان کے سامنے ٹھوس شواہد پیش کیے ہیں جو دہشت گردی میں ملوث عناصر سے متعلق ہیں، اور ثالثوں کے ذریعے افغانستان کو اپنے وعدوں کی پاسداری کی یاد دہانی کرائی گئی ہے۔
پاکستانی مؤقف کے مطابق، افغان سرزمین مسلسل پاکستان کے خلاف استعمال کی جا رہی ہے۔ بارڈر فائرنگ کے حالیہ واقعات، خصوصاً چمن کے مقام پر، اسی عدم تعاون کی علامت ہیں۔ پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے ان واقعات میں مکمل ذمہ داری کا مظاہرہ کیا، تاہم افغان طالبان کے بے بنیاد دعوؤں کو مسترد کر دیا گیا۔ وزارتِ خارجہ کے مطابق ایسے واقعات سرحدی بندش کا باعث بنتے ہیں اور سرحد کھولنے یا بند رکھنے کے فیصلے ملکی سلامتی کو مدنظر رکھ کر کیے جائیں گے۔
افغانستان کے امور پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان مذاکراتی عمل کو محض وقت حاصل کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق، موجودہ سیز فائر طالبان کے لیے ایک سہولت کا باعث ہے، جبکہ پاکستان مسلسل دہشت گردی کا نشانہ بن رہا ہے۔
پاکستان کے لیے ایک اہم چیلنج یہ ہے کہ مذاکرات میں ثالثی ترکیہ اور قطر کر رہے ہیں۔ اصولی طور پر ثالثی ممالک کو ایک واضح اور دوٹوک مؤقف اختیار کرنا چاہیے تاکہ طالبان پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔ دوسری جانب، طالبان نے نہ صرف دوحہ معاہدے کی متعدد شقوں کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھا کر علاقائی توازن پر بھی اثر ڈالا ہے۔ بھارت کی سرمایہ کاری افغانستان میں بڑھتی جا رہی ہے، جس سے پاکستان کے تحفظات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
دوحہ معاہدہ 2021 میں طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی اور وہ دہشت گرد گروہوں مثلاً داعش، خراسان اور تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف سخت کارروائی کریں گے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ٹی ٹی پی کے تربیتی مراکز آج بھی افغانستان میں فعال ہیں، اور ان کی قیادت کھلے عام سرگرم ہے۔ طالبان حکومت نہ صرف ان کے خلاف کارروائی سے گریزاں ہے بلکہ پاکستان کے مطلوب دہشت گردوں کو بھی حوالے کرنے سے انکار کر رہی ہے۔
استنبول مذاکرات میں بھی یہی نکات زیرِ بحث ہیں۔ تاہم طالبان وفد کے پاس کوئی حتمی مینڈیٹ نہیں، اور وہ اکثر فیصلوں کے لیے کابل یا قندھار میں اپنے لیڈروں سے اجازت طلب کرتے ہیں۔ یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ طالبان کا حکومتی ڈھانچہ کمزور ہے اور ان کے درمیان فیصلہ سازی کا کوئی واضح نظام موجود نہیں۔ طالبان نمائندگان ریاستِ افغانستان کے مفاد میں نہیں بلکہ اپنی قیادت کے تابع ہو کر بات چیت کرتے ہیں، جو مذاکراتی عمل کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ ہے۔
یہ بھی محسوس کیا جا رہا ہے کہ طالبان حکومت پورے افغانستان پر مکمل کنٹرول نہیں رکھتی۔ مختلف علاقے مختلف کمانڈروں اور جتھوں کے زیرِ اثر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک جانب استنبول میں مذاکرات جاری ہوتے ہیں، تو دوسری جانب پاک افغان سرحد پر دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے ہوتے ہیں۔ اگرچہ بظاہر سیزفائر نافذ ہے، لیکن افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہ اس سے آزاد ہیں۔
پاکستان ایک منظم ریاست ہے اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرتا ہے، لیکن دہشت گرد گروہوں پر کسی قانون یا معاہدے کی پابندی لازم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرحد پار سے مسلسل دہشت گردی کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ طالبان قیادت کا المیہ یہ ہے کہ وہ یہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کہ وہ دہشت گرد گروہوں پر مکمل قابو نہیں رکھ سکتی۔ اگر وہ اس حقیقت کو تسلیم کر لیں، تو پاکستان کے ساتھ مل کر ان گروہوں کے خلاف مشترکہ کارروائیاں کی جا سکتی ہیں۔
ایسا تعاون نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان کے مفاد میں بھی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے سے افغان عوام کو امن و سکون میسر آئے گا اور خطے میں استحکام بڑھے گا۔ تاہم اس کے لیے پہلا قدم سچائی کا اعتراف اور دوحہ معاہدے کی مکمل پاسداری ہے۔
افغانستان میں بدامنی اور دہشت گرد گروہوں کی آزادانہ سرگرمیاں نہ صرف ہمسایہ ممالک کے لیے خطرہ ہیں بلکہ افغانستان کی ترقی کے راستے میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ امن کے بغیر نہ سرمایہ کاری ممکن ہے اور نہ ہی تعمیر و ترقی۔ اسی لیے عالمی برادری اب بھی طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے سے گریزاں ہے۔ چند ممالک جنہوں نے محدود سطح پر تعلقات قائم کیے ہیں، وہ بھی اپنے معاشی یا جیوپولیٹیکل مفادات کے تحت ایسا کر رہے ہیں، نہ کہ افغان عوام کی فلاح کے لیے۔
طالبان قیادت کو یہ حقیقت سمجھنی چاہیے کہ افغانستان کی ترقی کا انحصار علاقائی تعاون پر ہے۔ خصوصاً پاکستان کے بغیر افغانستان کا معاشی نظام مستحکم نہیں ہو سکتا۔ افغانستان کی زیادہ تر تجارتی گزرگاہیں پاکستان سے ہو کر گزرتی ہیں، جبکہ وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت کا راستہ بھی امن و استحکام سے مشروط ہے۔
اگر طالبان حکومت واقعی افغانستان کے مستقبل کو بہتر بنانا چاہتی ہے تو اسے عملی اقدامات کے ذریعے دوحہ معاہدے کی پاسداری کرنی ہوگی۔ دہشت گرد گروہوں کے خلاف مؤثر کارروائی، ہمسایہ ممالک کے ساتھ اعتماد سازی، اور علاقائی تعاون کا فروغ ہی افغانستان کو عالمی سطح پر ایک معتبر حیثیت دلانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
استنبول مذاکرات اسی سمت میں ایک موقع ہیں—اگر افغان طالبان اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے سنجیدہ اقدامات کریں تو نہ صرف دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری ممکن ہے بلکہ پورے خطے میں دیرپا امن کی بنیاد بھی رکھی جا سکتی ہے۔












Comments 1