ڈی این اے کی ساخت دریافت کرنے والے سائنسدان جیمز واٹسن ہمیشہ کے لیے رخصت
دنیا کی سائنسی تاریخ کا ایک روشن باب آج بند ہو گیا۔ ڈی این اے کی ساخت دریافت کرنے والے معروف امریکی سائنسدان جیمز ڈی واٹسن 97 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کی وفات نے سائنس، طب اور جینیات کے میدان میں ایک خلا پیدا کر دیا ہے، جسے بھرنا ممکن نہیں۔
ایک عظیم دریافت کا آغاز
1953 میں، جیمز واٹسن اور ان کے برطانوی ساتھی فرانسس کرک نے ڈی این اے کی ساخت یعنی ڈبل ہیلِکس ماڈل پیش کیا۔ اس دریافت نے یہ سمجھنے میں مدد دی کہ جینیاتی معلومات کس طرح ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی ہیں۔
یہ صرف ایک سائنسی کامیابی نہیں تھی، بلکہ اس نے پوری انسانیت کو اپنی وراثتی کوڈ کو سمجھنے کا موقع دیا۔
نوبل انعام اور عالمی شناخت
ڈی این اے کی ساخت دریافت کرنے پر، جیمز واٹسن، فرانسس کرک اور موریس ولکنز کو 1962 میں نوبل انعام برائے طب سے نوازا گیا۔ ان کی مشترکہ کاوش نے حیاتیاتی تحقیق کے دروازے کھول دیے۔ نوبل کمیٹی نے انہیں "انسانی وراثت کی بنیاد دریافت کرنے والے” قرار دیا۔
واٹسن کی زندگی اور کیریئر
جیمز واٹسن 6 اپریل 1928 کو شکاگو میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے شروعات میں حیاتیات (Biology) میں دلچسپی ظاہر کی، مگر بعد میں ان کا جھکاؤ جینیات کی طرف ہوا۔
جب انہوں نے ڈی این اے کی ساخت کی تفصیل سامنے رکھی، تو وہ صرف 25 سال کے تھے۔
بعد ازاں وہ “ہیومن جینوم پروجیکٹ” کے بانی اراکین میں شامل ہوئے، جو انسان کے مکمل جینیاتی نقشے کی تیاری پر مبنی تھا۔
ڈی این اے کی ساخت — سائنس میں انقلاب
ڈی این اے کی ساخت کو سمجھنا ایسا ہی تھا جیسے زندگی کا بنیادی فارمولا ڈھونڈ لینا۔
اس دریافت نے طب، بایوٹیکنالوجی، فارماسیوٹیکل سائنسز اور فارنزک تحقیق میں زبردست ترقی کو جنم دیا۔
آج دنیا کی ہر بڑی سائنسی تحقیق، دوا سازی، حتیٰ کہ کرائم انویسٹی گیشن بھی اسی دریافت کی بنیاد پر کھڑی ہے۔
جیمز واٹسن کا نظریاتی اثر
واٹسن صرف ایک سائنسدان نہیں تھے، بلکہ ایک استاد، رہنما اور تحریک دینے والی شخصیت بھی تھے۔ ان کی کتاب “The Double Helix” نے لاکھوں طلبہ اور محققین کو متاثر کیا۔
انہوں نے اپنی تحقیق سے یہ پیغام دیا کہ تجسس ہی علم کا پہلا قدم ہے۔ ڈی این اے کی ساخت کی دریافت دراصل انہی سوالوں کے جواب میں ممکن ہوئی جو ان کے ذہن میں بچپن سے پل رہے تھے۔
تنقید اور تنازعات
اگرچہ واٹسن کو ڈی این اے کی ساخت کی دریافت پر شہرت ملی، لیکن ان کے کیریئر میں کچھ تنازعات بھی رہے۔ ان کے بعض بیانات کو سائنسی برادری نے متنازع قرار دیا۔ تاہم ان کی سائنسی خدمات پر کسی کو شک نہیں۔
آخری دن اور دنیا کا ردعمل
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق جیمز واٹسن نیویارک میں اپنے گھر پر انتقال کر گئے۔
دنیا بھر کے سائنسدان، ادارے اور تحقیقی مراکز ڈی این اے کی ساخت کے اس عظیم موجد کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں۔
نوبل فاؤنڈیشن نے کہا، “واٹسن کی دریافت نے انسان کو خود کو سمجھنے کا علم دیا، ان کا نام ہمیشہ سائنس کی تاریخ میں زندہ رہے گا۔”
ان کی میراث
جیمز واٹسن کا نام ہمیشہ ڈی این اے کی ساخت کے ساتھ جڑا رہے گا۔ ان کی دریافت نے نہ صرف جینیات بلکہ انسانیت کے فہم کو نئی جہت دی۔
آج جب ہم جین ایڈیٹنگ، کلوننگ یا وراثتی بیماریوں کے علاج کی بات کرتے ہیں، تو دراصل ہم واٹسن اور ان کے ساتھیوں کی بنیاد پر کھڑے ہیں۔
ڈاکٹر عابد رضا پاکستان کے ٹاپ 10 ماحولیاتی سائنسدانوں میں شامل
جیمز واٹسن کا انتقال ایک دور کے خاتمے کے مترادف ہے۔
ڈی این اے کی ساخت کی دریافت نے ہمیں یہ سکھایا کہ زندگی کے راز فطرت کے اندر چھپے ہیں، بس انہیں دیکھنے والی نگاہ چاہیے۔
واٹسن نے وہ نگاہ دنیا کو دی۔ وہ چلے گئے، مگر ان کی دریافت، ان کا علم اور ان کا اثر ہمیشہ باقی رہے گا۔










Comments 1