پاکستان کی معروف ادبی شخصیت ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا انتقال کر گئیں
ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا — علم، ادب اور فہم و دانش کی علامت
لاہور سے افسوسناک خبر موصول ہوئی ہے کہ پاکستان کی ممتاز ادبی، سماجی اور تعلیمی شخصیت
ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا انتقال کر گئی ہیں۔
یہ خبر ملک کے علمی و ادبی حلقوں میں گہرے دکھ اور افسوس کے ساتھ سنی گئی۔
ان کے قریبی دوست، معروف ڈرامہ نگار اور شاعر اصغر ندیم سید نے
ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا کے انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے کہا:
"پاکستان نے ایک ایسی روشن دماغ خاتون کھو دی ہے جنہوں نے
تعلیم، سماج اور زبان کے فروغ میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔”
ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا کا علمی و ادبی سفر
ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا نے اپنی ابتدائی تعلیم لاہور سے حاصل کی۔
انہوں نے ایم اے اردو گورنمنٹ کالج لاہور (موجودہ جی سی یونیورسٹی) سے مکمل کیا۔
بعد ازاں وہ امریکہ کے ایسٹ ویسٹ سینٹر، یونیورسٹی آف ہوائی گئیں
جہاں سے انہوں نے تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
ان کی تحقیقی خدمات اور علمی بصیرت نے انہیں پاکستان کے
معروف ترین ماہرینِ تعلیم میں شامل کر دیا۔
گورنمنٹ کالج فار ویمن گلبرگ میں خدمات
ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا 1986 سے 2009 تک گورنمنٹ کالج فار ویمن گلبرگ لاہور کی پرنسپل رہیں۔
اس دوران انہوں نے نہ صرف ادارے کو جدید خطوط پر استوار کیا
بلکہ ہزاروں طالبات کی علمی و فکری تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔
ان کے شاگرد آج بھی ان کی شفقت، رہنمائی اور وژن کو یاد کرتے ہیں۔
ادبی و سماجی خدمات
ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا کا نام ادب، تعلیم اور سماجی خدمت کے میدان میں احترام سے لیا جاتا ہے۔
انہوں نے ہمیشہ پاکستان میں خواتین کی تعلیم، ثقافت کے فروغ
اور اردو زبان کی ترویج کے لیے اپنی آواز بلند کی۔
انہوں نے کئی قومی کمیٹیوں میں رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں
جن میں تعلیمی نصاب کی تشکیل، ثقافتی پالیسی اور سماجی اصلاحات شامل تھیں۔
زبان و ثقافت پر مہارت
ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا 7 زبانوں پر عبور رکھتی تھیں۔
ان میں اردو، انگریزی، فارسی، عربی، پنجابی، پشتو اور ہندی شامل تھیں۔
زبانوں پر عبور نے ان کے علمی کام کو مزید وسعت دی،
اور وہ مختلف ثقافتوں کے مابین فکری رابطے کی علامت بن گئیں۔
علم و فہم کا سفر — فکر کی روشنی
ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا صرف ایک استاد نہیں تھیں،
بلکہ وہ فکر و دانش کی ایک تحریک تھیں۔
انہوں نے اپنی تقاریر اور تحریروں میں ہمیشہ برداشت، مساوات اور علمی آزادی پر زور دیا۔
ان کے لیکچرز پی ٹی وی اور مختلف تعلیمی پلیٹ فارمز پر آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔
ان کی گفتگو میں نہ صرف علم کی گہرائی بلکہ انسانیت کی نرمی بھی جھلکتی تھی۔
ادبی حلقوں کا اظہارِ تعزیت
ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا کے انتقال پر ادبی، علمی اور سماجی شخصیات نے
گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
اصغر ندیم سید نے کہا:
"ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا کی وفات علم و ادب کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔”
فیض فاؤنڈیشن، الحمرا آرٹس کونسل اور پاکستان آرٹس کونسل
نے بھی ان کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔
نمازِ جنازہ اور تدفین
اصغر ندیم سید کے مطابق، ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا کی نماز جنازہ
اور تدفین کے شیڈول کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
ان کے انتقال سے ملک کے علمی و ثقافتی منظرنامے میں ایک خلا پیدا ہو گیا ہے
جو آسانی سے پُر نہیں ہو سکتا۔
ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا — ایک عہد کا اختتام
ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا کا انتقال صرف ایک فرد کا نہیں،
بلکہ ایک فکری عہد کے اختتام کی علامت ہے۔
انہوں نے اپنی زندگی تعلیم، علم، تہذیب اور انسان دوستی کے نام وقف کی۔
ان کے شاگرد، دوست اور مداح ہمیشہ ان کی علمی روشنی سے فیض یاب رہیں گے
بلبلِ صحرا ریشماں کو رخصت ہوئے 12 برس بیت گئے مگر آواز آج بھی امر ہے









