حکومت کسی کو بھی تاحیات عدالتی استثنیٰ دینے کی کوشش نہ کرے، مفتی تقی عثمانی نے شریعت اور آئین کے خلاف ہونے پر خبردار کیا
کراچی میں معروف عالمِ دین اور نائب صدر جامعہ دارالعلوم کراچی مفتی تقی عثمانی نے حالیہ بیان میں تاحیات عدالتی استثنیٰ کے تصور کو نہ صرف اسلامی اصولوں کے خلاف قرار دیا بلکہ آئینِ پاکستان کی روح سے بھی متصادم بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام میں کوئی بھی شخص، خواہ وہ کسی بڑے منصب پر فائز کیوں نہ ہو، قانون اور عدلیہ کے دائرے سے بالاتر نہیں ہوسکتا۔
اسلامی نقطۂ نظر اور تاحیات عدالتی استثنیٰ
مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ اسلام میں عدل و انصاف کی بنیاد مساوات پر رکھی گئی ہے۔ خلفائے راشدین کے دور میں بھی کسی کو تاحیات عدالتی استثنیٰ حاصل نہیں تھا۔ خلیفہ وقت بھی عدالت کے سامنے جواب دہ ہوتا تھا، اور اسی اصول پر اسلامی معاشرہ قائم ہوا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسلام میں کسی کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنے اعمال پر کبھی بھی بازپرس سے مستثنیٰ رہے۔ تاحیات عدالتی استثنیٰ کا تصور نہ صرف غیر اسلامی ہے بلکہ یہ ظلم کے دروازے کھول دیتا ہے۔
آئینی اور قانونی پہلو
مفتی صاحب نے اپنے بیان میں کہا کہ دستورِ پاکستان میں بھی اس طرح کا استثنیٰ ماضی میں صدر کو دیا گیا تھا، جو اسلام کے خلاف تھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر اب کسی کو تاحیات عدالتی استثنیٰ دینے کی کوشش کی جارہی ہے تو یہ شریعت اور آئین دونوں کی روح کے خلاف ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت اور قانون کے سامنے سب برابر ہیں، چاہے وہ وزیرِ اعظم ہو یا عام شہری۔ آئینِ پاکستان بھی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ریاست میں عدل و انصاف قائم رہے، اور تاحیات عدالتی استثنیٰ اس اصول کی نفی کرتا ہے۔
سیاسی و اخلاقی اثرات
مفتی تقی عثمانی نے اپنے بیان میں خبردار کیا کہ اگر کسی کو تاحیات عدالتی استثنیٰ دیا گیا تو یہ عمل نہ صرف غیر شرعی بلکہ قوم کے لیے اخلاقی المیہ ہوگا۔ یہ پیغام دے گا کہ طاقتور قانون سے بالاتر ہے اور عام شہری کمزور ہے۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے ارکان کو چاہیے کہ وہ اس قانون سازی میں حصہ نہ لیں جو ملک اور دین دونوں کے اصولوں کے خلاف ہو۔ ان کے بقول، ’’یہ ایسا گناہ ہوگا جو آنے والی نسلوں پر بوجھ بن جائے گا۔‘‘
تاریخی تناظر اور عدالتی مثالیں
اسلام کی تاریخ میں کئی ایسے مواقع ہیں جہاں حاکم وقت کو عدالت کے سامنے پیش ہونا پڑا۔ خلفائے راشدین کے دور میں حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے واقعات عدالتی انصاف کی بہترین مثال ہیں۔ ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ تاحیات عدالتی استثنیٰ کا کوئی وجود اسلام میں نہیں۔
مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ اگر خلفائے راشدین جیسی شخصیات کو عدلیہ کے سامنے پیش ہونے میں عار محسوس نہیں ہوئی تو آج کے حکمرانوں کو بھی قانون سے بالاتر ہونے کا حق حاصل نہیں۔
موجودہ حالات میں پیغام
ملک میں جاری سیاسی و آئینی کشمکش کے دوران مفتی صاحب کا یہ بیان بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس وقت کئی حلقے تاحیات عدالتی استثنیٰ کو ایک سیاسی تحفظ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ مگر مفتی تقی عثمانی کا مؤقف اس بات کو واضح کرتا ہے کہ مذہب اور قانون دونوں کسی شخص کو غیر محدود استثنیٰ نہیں دیتے۔
مفتی تقی عثمانی کا پارلیمنٹ کے نام پیغام
مفتی صاحب نے اپنے پیغام میں کہا کہ ’’پارلیمنٹ کے ارکان سے گزارش ہے کہ وہ ایسا قانون منظور نہ کریں جو شریعت اور آئین دونوں کے خلاف ہو۔ اگر آپ کسی کو تاحیات عدالتی استثنیٰ دیتے ہیں تو یہ ملک کی اخلاقی بنیادوں کو ہلا دے گا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اس دنیا میں کوئی طاقت انسان کو اللہ کے عدل سے بچا نہیں سکتی۔ جو دنیا میں عدالت سے بچ گیا، آخرت میں جواب دہی سے نہیں بچ سکے گا۔
27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے سینیٹ کا اجلاس — حکومت کا نمبر پورا
تاحیات عدالتی استثنیٰ کا تصور نہ صرف شریعت کی بنیادی روح کے خلاف ہے بلکہ یہ انصاف کے بنیادی اصولوں کو بھی کمزور کرتا ہے۔ مفتی تقی عثمانی کا مؤقف اس امر کی یاد دہانی ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے، چاہے وہ حکمران ہو یا عام شہری۔









