ٹرمپ کا H-1B ویزا پالیسی پر یو ٹرن: امریکا کو کیوں درکار ہیں غیر ملکی ماہرین؟
H-1B ویزا کی اہمیت
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں H-1B ویزا پالیسی سے متعلق اپنے سابقہ سخت موقف پر یو ٹرن لے لیا ہے۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، ایک حالیہ انٹرویو میں ٹرمپ نے حیران کن طور پر غیر ملکی ہنر مند ملازمین کی اہمیت کا دفاع کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ H-1B ویزا پالیسی امریکی معیشت کے لیے ناگزیر ہے، خاص طور پر ٹیکنالوجی، مینوفیکچرنگ اور دفاع جیسے شعبوں میں جہاں مقامی ٹیلنٹ کی کمی ہے۔ یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب ٹرمپ انتظامیہ نے H-1B ویزا پالیسی پر نئی پابندیاں عائد کی تھیں، جو کمپنیوں کے لیے چیلنجز پیدا کر رہی ہیں۔
ٹرمپ کا بیان:ویزا پالیسی کی ضرورت کیوں؟
انٹرویو کے دوران، جب H-1B ویزا پالیسی پر عائد پابندیوں کے بارے میں پوچھا گیا تو صدر ٹرمپ نے کہا، "امریکا کو کچھ شعبوں میں غیر ملکی ٹیلنٹ کی شدید ضرورت ہے۔ ہم طویل عرصے سے بے روزگار امریکیوں کو مناسب تربیت کے بغیر پیچیدہ فیلڈز جیسے مینوفیکچرنگ اور دفاع میں شامل نہیں کر سکتے۔
اس لیے H-1B ویزا پالیسی کے تحت ماہر افراد کو بیرون ملک سے لانا ضروری ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ "امریکا میں باصلاحیت افراد کی کمی ہے؛ آپ کے پاس وہ مخصوص صلاحیتیں نہیں ہیں جو امریکیوں کو فوری طور پر سیکھنی پڑیں گی۔” یہ بیان H-1B ویزا پالیسی کی حمایت میں ایک اہم موڑ ہے، جو ٹرمپ کی ابتدائی امیگریشن پالیسیوں سے بالکل مختلف ہے۔
H-1B ویزا پر حالیہ تبدیلیاں
واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ستمبر 2025 میں H-1B ویزا پالیسی پر سخت کریک ڈاؤن شروع کیا تھا۔ صدر نے ایک پروکلمیشن جاری کیا جس کے تحت نئی H-1B ویزا درخواستوں کے لیے 1 لاکھ ڈالر کی اضافی فیس عائد کی گئی، جو 21 ستمبر 2025 سے نافذ العمل ہوئی۔ یہ فیس صرف نئی درخواستوں پر و ہوتی ہے، موجودہ H-1B ویزا ہولڈرز پر نہیں۔ تاہم، اس اقدام سے ٹیک کمپنیاں پریشان ہو گئیں، کیونکہ H-1B ویزا پالیسی ان کے لیے غیر ملکی ماہرین کو ہائر کرنے کا بنیادی ذریعہ ہے۔
بڑی کمپنیاں جیسے ایمازون، مائیکروسافٹ اور گوگل ہر سال ہزاروں H-1B ویزا استعمال کرتی ہیں۔ اس فیس نے H-1B ویزا پالیسی کو مزید پیچیدہ بنا دیا، لیکن ٹرمپ کا تازہ بیان اسے متوازن بنانے کی کوشش لگتا ہے۔
غیر ملکی ہنر مندوں کا کردار امریکی معیشت میں
H-1B ویزا پالیسی 1990 میں متعارف ہوئی تھی، جو ہائی اسکلڈ ورکرز کو عارضی طور پر امریکا لانے کی اجازت دیتی ہے۔ 2024 مالی سال میں تقریباً 4 لاکھ H-1B ویزا درخواستوں کی منظوری ہوئی، جن میں سے زیادہ تر ٹیک اور ہیلتھ کیئر شعبوں سے متعلق تھیں۔ ٹرمپ کا یو ٹرن اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ H-1B ویزا صرف امیگریشن نہیں بلکہ اقتصادی ترقی کا ذریعہ ہے۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ بغیر H-1B ویزا پالیسی کے، امریکی کمپنیاں مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ مثال کے طور پر، انفارمیشن ٹیکنالوجی میں H-1B ورکرز کی تعداد 65% تک بڑھ گئی ہے، جو امریکی نوکریوں کو متاثر کرنے کے بجائے انہیں سپورٹ کرتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ H-1B ویزا پالیسی کی بہتر ہونے سے ہندوستانی اور چینی پروفیشنلز جیسے ڈاکٹرز اور انجینئرز امریکا کی معیشت کو مضبوط بنائیں گے۔
چیلنجز اور مستقبل کی H-1B ویزا پالیسی
اگرچہ ٹرمپ کا نرم رویہ خوش آئند ہے، لیکن H-1B ویزا پر اضافی شرائط جیسے ہائی ویج لیولز اور لاٹری سسٹم میں تبدیلیاں اب بھی زیر غور ہیں۔ محنت کے محکمہ کو ہدایات دی گئی ہیں کہ H-1B ویزا پالیسی کو "بہترین آف دی بیسٹ” کے لیے ریفارم کیا جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ کم تنخواہ والے ورکرز کی بجائے ہائی اسکلڈ افراد کو ترجیح دی جائے گی۔
ٹرمپ انتظامیہ کا ویزا پالیسی فیصلہ: موٹاپے اور ذیابیطس میں مبتلا افراد کے لیے ویزا بند
ٹرمپ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ H-1B ویزا پالیسی کا غلط استعمال امریکی ورکرز کی نوکریوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے، جیسا کہ کچھ کمپنیوں نے H-1B ویزا لے کر مقامی ملازمین کو فارغ کیا۔ تاہم، ٹرمپ کا تازہ دفاع یہ ظاہر کرتا ہے کہ H-1B ویزا متوازن رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مستقبل میں، H-1B ویزا کی مزید ریفارمز سے امریکی معیشت کو فائدہ ہو سکتا ہے، بشرطیکہ یہ امریکی ورکرز کی تربیت پر بھی توجہ دیں۔
H-1B ویزاکا متوازن راستہ
ٹرمپ کا H-1B ویزا پالیسی پر یو ٹرن ایک مثبت قدم ہے، جو غیر ملکی ہنر مندوں کی قدر کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ بیان کمپنیوں کو راحت دے گا اور H-1B ویزا کو جاری رکھنے میں مدد کرے گا۔ امریکی حکومت کو چاہیے کہ H-1B ویزا پالیسی کو مزید شفاف بنائے تاکہ یہ دونوں فریقوں کے مفاد میں ہو۔ بالآخر، H-1B ویزا پالیسی امریکا کی عالمی قیادت کو برقرار رکھنے کا کلیدی عنصر ہے۔









